پاکستانی خواتین قیدی آٹھ جولائی، 2006 کو راول پنڈی کی اڈیالہ جیل میں اپنے بچوں کے ساتھ ایک سیل میں بیٹھی ہیں (اے ایف پی)
ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا نامی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق جیلوں میں خواتین کی تعداد میں کھلا اضافہ ایک عالمی پریشانی بن چکا ہے۔
2000 سے اب تک عالمی سطح پہ جیلوں میں خواتین کی آبادی میں 60 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو عالمی سطح پہ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کا 2.8 فی صد مانا جاتا ہے۔
جیلوں میں خواتین کی تعداد کے عالمی اوسط کے برعکس پاکستان میں یہ جیل آبادی قدرے کم یعنی 1.6 فی صد ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کی پچھلی ایک دہائی کے دوران اس تعداد میں 20 فی صد اضافہ ہوا۔ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کُل خواتین قیدیوں کی تعداد 1399 بنتی ہے، جن میں سے صرف صوبہ پنجاب میں 920 خواتین قیدی مختلف جیلوں میں موجود ہیں۔
عورت فاؤنڈیشن کی کوئٹہ ویمن پرزن سے وابستہ یاسمین مغل کے مطابق صرف پنجاب میں اس بڑی تعداد کی وجہ نہ صرف وہاں کی آبادی بلکہ غربت اور گھریلو تشدد کے واقعات وغیرہ اس میں اضافے کا باعث ہو سکتے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رکن فرح ضیا کے مطابق اس بڑی تعداد کی وجہ آبادی کا تناسب ہے، جتنی زیادہ آبادی اتنے زیادہ جرائم۔
یاسمین کا جیل قوانین کے ’جیل فرینڈلی‘ ہونے کے حوالے سے ماننا ہے کہ یہ قوانین 1894 اور 1900 کے ہیں، جو 1947 سے قبل 1938 میں چند ترامیم کے بعد لاگو کیے گئے اور آج بھی اسی طرح نافذ ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق انسانی حقوق، حفظان صحت اور خوراک کے حوالے سے ان کو بہتر بنانے کی کافی گنجائش ہے۔
یاسمین کے مطابق ان جیلوں میں اب بھی انسانی حقوق کو مد نظر رکھ کے کام کرنے کا فقدان ہے۔
دور دراز کی جیلوں میں خاص توجہ اور ترامیم کی ضرورت ہے، جہاں ہیومن راٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق خواتین کے طبی معائنے کے لیے زنانہ عملے کی ضرورت رہتی ہے۔
یاد رہے ان سبھی جیلوں کا ڈھانچہ بھی بوسیدہ ہو چکا ہے۔ضلع ہزارہ کے ضلعی پرزن آفیسر ڈی آئی جی عمیر خان کے مطابق خواتین کے حوالے سے جیل کے اقدامات اور قوانین انتہائی سخت ہوتے ہیں۔
قانون کے مطابق خواتین جیل میں تمام عملہ زنانہ ہونا لازمی ہے اور ان کا احاطہ مردانہ جیل سے مکمل علیحدہ ہوتا ہے۔
ایک لیڈی ڈاکٹر بھی رکھی جاتی ہے۔ شیرخوار بچوں کی قیدی ماؤں کی غذا کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور دو سال تک کی عمر کے بچوں کو دودھ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
ڈی آئی جی عمیر خان کا ماننا ہے کہ یقیناً بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے۔
ایچ آر سی پی کی فرح ضیا کے مطابق ان خواتین قیدیوں کے لیے علیحدہ احاطوں سے زیادہ الگ جیلوں کی ضرورت ہے کیونکہ ایک ہی چار دیواری میں ان کی سلامتی اور صحت کے مسائل سر اٹھاتے رہتے ہیں۔
خواتین قیدیوں کے لیے خطرے کا عنصر بڑھ جاتا ہے۔ ’بچوں کی جیل میں فیمیل جووینائل‘ کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے بھی قوانین کو از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ ’ہم ایسا ماحول فراہم کریں جس سے وہ فعال شہری بن کے باہر آئیں۔‘
جہاں تک سوال ہے کہ یہ خواتین زیادہ تر کن مقدموں میں جیل آتی ہیں تو حیران کن طور پہ ضلع ہزارہ سے لے کر کراچی سینٹرل جیل تک یہ دو ہی جرائم (منشیات فروشی اور قتل) کے مقدموں میں جیل آتی ہیں۔
ان قیدی خواتین کو کوئٹہ جیل میں حفظان صحت کے حوالے سے بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کا سامنا سردی اور گرمی ہر دو موسموں میں رہتا ہے اور اسی حوالے سے کئی سہولیات کو بہتر بنانے پہ ڈسٹرکٹ ہزارہ ڈی آئی جی پرزن نے بھی اتفاق کیا۔
جب کہ کوئٹہ جیل کے ڈی آئی جی ضیا ترین کے مطابق اس سلسلے میں بہتری لانے کے اقدامات پہ کام جاری رہتا ہے۔ وہ ’ری ہیبیلیٹیشن‘ کی حمایت کرتے ہیں اور صحت سے متعلق ضروری اقدامات سے نظر چراتے نہیں ملے۔
یاسمین کے مشاہدات کے مطابق جیلوں میں قیدیوں کی تعداد حد سے زیادہ ہے۔ کوئٹہ جیل میں سردیوں کے دوران گرم پانی کی سہولت نہ ہونے کے باعث قیدی خواتین جسمانی صفائی کا خیال نہیں رکھ سکتیں اور حال ہی میں بیشتر ’ریبیز‘ کا شکار ہوئیں۔
اس پر انسانی حقوق کے اداروں نے آواز اٹھائی اور پھر گیزر وغیرہ بھی عطیہ کیے گئے۔
کوئٹہ جیل سے متعلق یہ بھی معلوم ہوا کہ عمر کے حساب سے باقاعدہ درجے نہیں بنائے جاتے اور سبھی خواتین قیدیوں کو اکھٹا بیرکس میں رکھا جاتا ہے۔
یہ قیدی خواتین زیادہ تر ’انڈر ٹرائل‘ ہوتی ہیں اور بہت کم سزا یافتہ ہوتی ہیں۔ان میں اکثر چھوٹے بچوں کی مائیں بھی ہوتی ہیں، اس لیے بچوں کے ساتھ آتی ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ ان جیلوں میں طبی مراکز، ریڈنگ روم اور وکیشنل مراکز بھی بنا دیے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ قیدی خواتین تین سال کی عمر تک کے بچوں کو اپنے ساتھ جیل میں رکھ سکتی ہیں، لیکن فرح ضیا پوچھتی ہیں کہ تین سال بعد ان بچوں کا مستقبل کیا ہو گا؟
یہ وہ سنجیدہ مسائل ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ علیحدہ جیلوں کا قیام اور بہتر بنیادی ڈھانچہ ان قیدی خواتین کا حق ہے۔
ڈی آئی جی کوئٹہ پرزن ضیا ترین نے اس بات پہ بھی زور دیا کہ جیلوں میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد گھر جانے والی خواتین کو قبول نہیں کیا جاتا اور ان کی جانوں کو بھی خطرہ رہتا ہے لہٰذا ان کے لیے دارالامان یا شیلٹر ہومز ہونے چاہیں جہاں یہ اپنی زندگیاں عزت دار طریقے سے دوبارہ بحال کر سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان تمام جیل حکام کا یہ بھی ماننا ہے سوشل میڈیا کے اس زمانے میں جیل حکام بھی قیدی خواتین کے معاملات میں ہر طرح کا خیال ملحوظ رکھتے ہیں۔
کوئٹہ پرزن کے ڈی آئی جی ضیا ترین نے بتایا کہ اس سال بلوچستان پرزن ایکٹ پر کام بھی کیا جارہا ہے۔کراچی سینٹرل پرزن کی ڈی آئی جی ویمن جیل شیبا شاہ سے جیل احکامات اور ان پر عمل درآمد کو انتہائی مثبت انداز میں بیان کیا۔
ان کے بقول حالیہ پرزن ایکٹ مرد و خواتین دونوں طرح کے قیدیوں کی حمایت میں جاتا ہے۔ ’اگر کسی قیدی مریض کو نجی علاج کی ضرورت ہو تو ضروری کاغذات کارروائی اور عدالت سے اجازت مل جانے پہ سہولت مل جاتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ دن بھر میں ان کو دو بار چائے ملتی ہے اور پانچ دن گوشت اور پولٹری بھی کھانے کو ملتے ہیں۔ حلوہ پوری بھی فراہم کی جاتی ہے۔
جیل میں تمام مذہبی تہوار منائے جاتے ہیں، جن میں سبھی خواتین شریک ہوتی ہیں۔ اگر کوئی قیدی تہوار کے موقعے پہ وڈیو کال کرنا چاہیں تو اس کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔
شیبا شاہ نے قیدی خواتین کے لیے سہولیات اور ان کی ’ری ہیبیلیٹشن‘ کا جب ذکر کیا تو یہ بھی معلوم ہوا کہ قیدی خواتین کو تعلیم، ہنر مندی اور صحت کے اصولوں پہ تربیت دی جاتی ہے، جس میں فائن آرٹس، کمپیوٹر کلاسز اور ’جم‘ بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ یہ خواتین کیلی گرافی، سلائی اور بیوٹیشن کا بھی کورس کرتی ہیں۔ قیدی خواتین کے کام کی نمائش بھی کی جاتی ہے، جس کی فروخت سےملنے والی رقم ان قیدیوں کو جاتی ہے، یوں وہ اہل خانہ کی مدد کر پاتی ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔