پائلٹ کا پیشہ ماضی میں مردوں سے منسوب رہا ہے لیکن حالیہ چند دہائیوں میں خواتین نے اس شعبے میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔
اس شعبے میں نہایت کم عمری میں نمایاں مقام حاصل کرنے والوں میں کراچی سے تعلق رکھنے والی منیل فاروقی بھی ہیں جو محض 18 برس کی عمر میں کمرشل پائلٹ بنی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو منیل سے ملنے کراچی میں واقع سکائی ونگز اکیڈمی، جہاں منیل نے ہوا بازی کی تربیت حاصل کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں منیل نے بتایا: ’اڑان بھرنے کا جنون مجھے بچپن سے ہی تھا اور میری زندگی کا یہی مقصد تھا کہ ایک نہ ایک دن میں میں پائلٹ ضرور بنوں، اب مجھے میرے پائلٹ بننے کے خواب کی تعبیر مل گئی ہے۔‘
’بچپن سے ہی میں نے ہوا بازی کے علاوہ کسی کیریئر پر توجہ نہیں دی، جہاز کو اڑتے دیکھنا، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی جہازوں کی اور پائلٹس کی ویڈیوز دیکھنا میرا شوق تھا۔ میں سندھ کے سارے اضلاع میں جہاز اڑا چکی ہوں۔ جس میں گھارو سے کر حیدر آباد، موئن جو دڑو، سکھر اور ٹھٹھہ شامل ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’خواتین کو ہوا بازی خاص طور پر پائلٹ کی حیثیت میں بہت پیچھے رکھا گیا، لیکن بدلتے دور میں ہزاروں خواتین نے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلا اور اب خواتین ہر شعبے میں پیش پیش ہیں اس میں ایک شعبہ ہوا بازی کا بھی ہے۔‘
’پائلٹ بننا آسان نہیں، تربیتی پروگرام بہت مشکل ہوتے ہیں‘
بقول منیل فارقی: ’جہاں کچھ کر دکھانے کا جنون ہوتا ہے وہاں صنف کی تخصیص نہیں ہوتی، بس منزل پر پہنچنا ہی مقصد ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ تو مردوں کا شعبہ ہے لیکن میرے والدین نے مجھ پر اعتماد کیا اورمیں نے بھی پورے عزم کے ساتھ ہوا بازی کے تربیتی پروگرام مکمل کیے۔
’دو سال محنت کر کے میں نے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس سے قبل او اور اے لیول کی پڑھائی ایک ساتھ کی جس کی وجہ سے میرا وقت بچا اور 18 سال کی عمر میں باقاعدہ کمرشل پائلٹ بن گئی۔‘
منیل فاروقی ایئر ایمبولینس پر خدمات انجام دیں گی
نجی ایوی ایشن کمپنی نے منیل فاروقی کو ایئر ایمبولینس چلانے کی ذمہ داری سونپی ہے، اس پر منیل کا کہنا ہے کہ ’طبی ہنگامی پروازوں کے لیے بطور پائلٹ ان کی تقرری اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ خواتین رکاوٹوں کو توڑ کر ہر شعبے میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔
’تاہم ایئر ایمبولینس چلانا انتہائی ذمہ داری کا کام ہے اور دوسری جانب یہ انسانیت کی خدمت بھی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’خواتین کا بطور پائلٹ ہوا بازی کے شعبے میں آنا اس بات کی مثال ہے کہ محنت، عزم اور لگن سے زندگی میں کچھ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
منیل کا کہنا ہے: ’خواتین کی اڑانیں آسمانوں کی وسعتوں کو چھو رہی ہیں اور ان کی کہانیاں نہ صرف فضائی صنعت بلکہ پوری دنیا کی خواتین کے لیے ایک تحریک بنی ہوئی ہیں اور آنے والی نسلیں انہیں اپنی کامیابیوں کے لیے مشعل راہ بنائیں گی۔‘