النکبہ: صہیونی جنگی جرائم کے لیے برطانوی انعام

 اسرائیل کے نسلی نو آبادیات کو مسلط رکھنے کی برطانوی پالیسی کے خلاف لندن میں بڑے بڑے مظاہرے حوصلہ افزا ہیں۔

لندن میں 23 مئی 2021 کو اسرائیل پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ (اے ایف پی فائل فوٹو) 

گذشتہ برسوں کے مقابلے میں اس سال قیام اسرائیل کی ’برسی‘ کئی حوالوں سے مختلف رہی۔ فلسطین آج ناانصافی، آبادکار نسل پرستی اور قبضے کے خلاف بیدار ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے یوم تاسیس کو فلسطینی ’النکبہ‘ یا ’بڑی تباہی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ 

کسی بھی فلسطینی کی زندگی میں تو قیامت 74 برس قبل اسی وقت آ گئی تھی کہ جب انہیں اپنے گھروں سے در بدر کیا گیا۔ اس روز فلسطین کی دو تہائی آبادی جبر و تشدد کے بےدریغ استعمال سے اپنے گھروں سے نکال کر ایک یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی گئی۔

نسل پرست نظریے پر کاربند اسرائیل نے گذشتہ برسوں میں کیا کچھ کیا ہے، اس کی یادیں اپنی جگہ لیکن اب آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ صہیونی مطالبہ کرتے ہیں کہ یہودیوں کو استصواب رائے کا حق حاصل ہے۔ یہ حق انہوں نے فلسطینیوں کی سرزمین فلسطین میں لینے کا پروگرام بنایا ہے۔

 سنہ 1917 کا بالفور ڈیکلریشن ایک شرم ناک معاہدہ تھا۔ اس کے تحت برطانیہ نے فلسطینیوں کی سرزمین چھین کر یہودیوں کو دے دی تھی تاکہ وہ اپنا ملک فلسطین کے اندر بنا لیں۔

فلسطینیوں کو ان کے اپنے ملک سے جبری طور پر نکالا گیا تھا، اس کے باوجود نسل کی بنیاد پر صفائی جاری ہے۔ النکبہ کا عمل کسی نہ کسی صورت میں جاری رکھا گیا ہے۔

یہ ایک نسلی صفائی تھی۔ اس دن کی گئی زیادتی کا ازالہ اب تک ہونا باقی ہے۔ اس واقعے کو 74 برس گزر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ہر قرارداد میں النکبہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس  کا اب تک ازالہ نہیں کیا گیا بلکہ یہ النکبہ اب بھی جاری ہے۔

اس کی ایک مثال مئی کے آغاز میں اس سال سامنے آئی۔ اسرائیل کی ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ دیا ہے جس سے اسرائیلی فوج کو یہ کھلا اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ ’مسافر یطا‘ کے علاقے سے ایک ہزار فلسطینیوں کو بےدخل کر دے۔ یہ علاقہ مغربی کنارے کے علاقے الخلیل میں ہے۔

یہ جبری طور پر آبادی کی ایک مقام سے نکال کر دوسرے مقام منتقلی کا عمل ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ غیر قانونی اقدام ہے۔ سینکڑوں ہزاروں دیہات کو مسمار کیا جا رہا ہے اور آبادی سے یہ علاقہ خالی کرایا جا رہا ہے۔

النکبہ کے دن جن فلسطینیوں کو جبری طور پر نکالا گیا تھا، انہیں اب تک اپنے گھروں اور دیہات کو واپس جانے کا حق نہیں دیا جا رہا۔ کسی کے علم میں نہیں ہے کہ اسرائیل لاکھوں کے قریب مہاجر بنائے جانے والوں کو واپس جانے دے گا یا نہیں۔ ان کا مستقبل کیا ہے، کوئی نہیں جانتا۔

ابھی 11 مئی کو اسی سال الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو عاقلہ کو قابض فوج نے گولی مار کر شہید کر دیا۔ اب اسرائیلی حکام عالمی توجہ ہٹانے اور افواہیں پھیلاتے ہوئے جو بھی کہیں یا کریں، اس میں کوئی دوسری بات نہیں ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کی گولی کا نشانہ بنائی گئیں۔ یہ سرا سر ایک بہیمانہ واقعہ تھا۔ سال 2000 سے کم و بیش 46 صحافی اسی درندگی کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔

غزہ میں چار صحافیوں کے قتل پر ایک مقدمہ عالمی عدالت برائے جرائم میں درج ہے۔ ان صحافیوں میں احمد ابو حسین، یاسر مرتضیٰ اور عمران کے نام شامل ہیں۔ نضال ابو اشطائے بھی ایک مارے جانے والی صحافی تھے۔ اسرائیل نے غزہ میں کسی اشتعال کے بغیر حملہ کر کے میڈیا دفاتر تباہ کر دیے تھے۔ یہ واقعہ بھی مئی میں گذشتہ سال (2021) پیش آیا تھا۔

 اسرائیلی ہٹ دھرمی

اس مقدمے کا جو بھی نتیجہ برآمد ہو، اسرائیل آسانی سے قتل عام بھی کرتا ہے اور خود کو ہر الزام سے بری الذمہ بھی قرار دیتا ہے۔ عالمی برادری کی ایک بے آواز صدائے احتجاج اسے ہر جرم کرنے کی کھلی چھٹی دیتی رہتی ہے۔

مثال کے طور پر اپریل میں برطانیہ نے پورے ہوش سے اقوام متحدہ میں اسرائیلیوں پر حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔ اس کے برعکس اس سے کہیں بڑے پیمانے پر  فلسطینی جانوں کے نقصان پر ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔

سنہ 1948 سے یہی سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل کو کبھی بھی جواب دہ نہیں ٹھہرایا گیا۔ اگر کبھی ایسا ہوا بھی ہے تو یہ زبانی جمع خرچ سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس کے دوسری طرح اس کی طرف سے بین الاقوامی قانون، انسانی احترام کے قانون یا شخصی وقار کی پامالی سے دوچار فلسطینیوں کے لیے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا گیا۔

اس سنگین انسانی المیے اور مسئلہ کے حل کی جانب کوئی پرامن اور منصفانہ اقدام نہیں کیا جا رہا۔ اس سلسلے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات اب کھلے عام کہی اور سمجھی جانے لگی ہے کہ اسرائیل کبھی بھی صحیح سمت اقدامات نہیں کرے گا۔ اس کے لیے ٹھوس بین الاقوامی عزم کی ضرورت ہے۔

چناں چہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ برطانیہ اس کے برعکس عمل پر ہر دم تیار ہے۔ وہ ان معیارات اور تقاضوں کا اسرائیل پر اطلاق نہیں کرتا جن کا اظہار آج وہ یوکرین کے بارے میں کرتا ہے۔ وہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اور حال ہی میں اس نے اسرائیل کے ساتھ بالکل تازہ تجارتی معاہدہ کیا ہے۔

یہ حکمت عملی خلط مبحث پیدا کرتی ہے۔ ایک طرف برطانیہ تسلیم کرتا ہے کہ مغربی کنارے بشمول مقبوضہ بیت المقدس اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضہ ناجائز اور غیر قانونی ہے۔ یہ پالیسی تقاضا کرتی ہے کہ برطانیہ اس بارے میں اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کرے۔

اس دوغلی حکمت عملی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ برطانیہ ان آبادکاروں کی مذمت کرتا ہے جو فلسطینی سرزمین پر تعمیر کی گئیں اور ہنوز ان کی مزید تعمیر و توسیع جاری ہے۔ یہ سراسر قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل سے تعلقات میں برطانیہ پہلے سے زیادہ سرگرم ہے۔

مزید پڑھیے

 بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی

سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اور اس کے حواری کوئی سبق بھی سیکھیں گے، اگر ہاں تو کب؟ یا پھر طاقتور ممالک اپنی ہی من مانی کرتے رہیں گے؟ اس کے لیے بہت آسان ہے کہ کسی بھی صحافی کو قتل کر دے، مقبوضہ علاقے اپنے اندر ضم کر لے، مقامی آبادی کے خلاف نسل پرستانہ پالیسی پر عمل کرتا جائے اور وہ جب چاہے فلسطینی سرزمین پر حملہ کر دے۔

اسرائیل کے لیے بین الاقوامی قانون ایک کھلونا ہے جس سے وہ جسے چاہےکھیلتا رہے۔ برطانیہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد جب مشرق وسطیٰ میں سرحدیں قائم کی جا رہی تھیں، برطانیہ اس کا بنیادی کردار تھا۔

اسرائیل کو یہ ساری کھلی چھوٹ اس کے باوجود دی گئی ہے جب بین الاقوانی قانون، اقوام متحدہ کی قراردادیں اور انسانی حقوق کے مسلمہ عالمی معیار اس کام کی اجازت ہرگز نہیں دیتے۔

اس پالیسی کے تباہ کن نتائج نکل رہے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کی حیثیت لوگوں میں ختم ہوتی جا رہی ہے۔

برطانیہ وہ ملک ہے جو فلسطین کا مسئلہ پیدا کرنے والے ممالک میں سرفہرست تھا۔ اسی نے بالفور معاہدے میں اسرائیل کو فلسطینی ریاست میں قائم کرایا تھا۔ یہ سیدھا سا نو آبادیات مسلط کرنے کا عمل ہے جس نے مقامی اور آبائی آبادی کے لیے کسی نوعیت کی عزت اور تحفظ باقی رہنے نہیں دیے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ لندن سمیت برطانوی شہروں میں فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شرکا کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل کے نسلی نو آبادیات کو مسلط رکھنے کی برطانوی پالیسی کی کوئی قدر باقی نہیں رہی ہے۔

یہی احتجاج تھا جس نے برطانیہ اور دوسری مغربی قوتوں کو مجبور کر دیا تھا کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست انتظامیہ کے خلاف اقدام کیا جائے۔ بہتر ہو گا کہ برطانیہ اور امریکہ میں سیاست دان بھی سبق سیکھیں اور اسرائیل کے اقدامات کا سدباب کرنا شروع کریں۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ