گندم کی قیمتوں کا اعلان نہ ہونے پر کسان اتحاد کا 14 اپریل سے احتجاج کا اعلان

کسان احتجاج کے حوالے سے چیئرمین کسان اتحاد خالد کھوکھر کا کہنا ہے کہ کاشتکار کو پیداواری لاگت بھی نہ ملنے کی وجہ سے بجلی، کھادوں اور بیجوں کے نرخ قوت خرید سے باہر ہیں۔ پیداواری اخراجات 3400 روپے فی من جب کہ گندم کا ریٹ 2200 روپے مل رہا ہے۔

چھ مئی 2024 کو اسلام آباد کے مضافات میں کسان کھیت میں گندم کی کٹائی کر رہے ہیں (فاروق نعیم / اے ایف پی)

پنجاب سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں گندم کی کٹائی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، تاہم حکومتی سطح پر نہ تو گندم کی قیمتوں کا اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی خریداری کا کوئی باقاعدہ منصوبہ سامنے آیا ہے۔ اس صورت حال پر کسان اتحاد نے 14 اپریل سے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

کسان اتحاد کے مطابق گذشتہ سال کی طرح اس بار بھی گندم کے کاشتکاروں کو اوپن مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، جس کے باعث گندم اس بار بھی سستے داموں فروخت کرنا ہوگی۔ کسان اتحاد نے گندم کی سرکاری سطح پر خریداری اور قیمت کا اعلان نہ ہونے پر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

چیئرمین کسان اتحاد، خالد کھوکھر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کسان اتحاد نے گندم کی خریداری اور نرخ طے نہ کرنے پر خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں کی تعداد میں 14 اپریل سے احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈھائی کروڑ ایکڑ پر گندم کاشت ہے لیکن آج گندم کا کاشتکار شدید پریشان ہے کیونکہ مالی مشکلات کے باعث وہ اپنے بیوی بچوں کو علاج اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے بھی قابل نہیں رہا۔‘

ترجمان محکمہ خوراک پنجاب، طلحہ ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کا امکان نہیں ہے۔ اسی لیے پنجاب سمیت کسی بھی صوبے میں گندم کی امدادی قیمت یا سرکاری سطح پر خریداری کا اعلان نہیں کیا گیا۔‘

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اعلان کیا ہے کہ صوبے سے گندم کی نقل و حمل کی باقاعدہ اجازت اور گندم کے لیے ڈی ریگولیشن اور فری مارکیٹ پالیسی جاری کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

حکومتی پالیسی اور کاشتکاروں کے مسائل

ترجمان محکمہ خوراک طلحہ ملک کے بقول، ’گندم کی خریداری حکومتی سطح پر نہیں کی جائے گی۔ جس طرح گذشتہ سال اوپن مارکیٹ میں گندم فروخت کی گئی تھی، اسی طرح اس سال بھی کاشتکار اپنی گندم اوپن مارکیٹ میں اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت کر سکیں گے۔ حکومت کی سرکاری سطح پر گندم خریداری کی پالیسی نہیں ہے، اسی لیے ریٹ بھی طے نہیں کیا گیا، کیونکہ ریٹ تو اس وقت طے کیا جا سکتا ہے جب خریداری کی جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کاشتکاروں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے رہی ہے، اسی لیے وزیراعلیٰ پنجاب نے بین الصوبائی پابندی ختم کی ہے تاکہ کاشتکار جہاں زیادہ ریٹ ملے، وہاں اپنی گندم فروخت کر سکیں۔

چیئرمین کسان اتحاد خالد کھوکھر نے کہا کہ ’کاشتکار کو اپنی پیداواری لاگت بھی نہیں مل رہی۔ بجلی، کھادوں اور بیجوں کے نرخ ہماری قوت خرید سے باہر ہو گئے ہیں۔ کاشتکار اپنے زیور فروخت کر کے زرعی دوائیں خریدتا ہے۔ آج پیداواری اخراجات 3400 روپے فی من اور گندم کا ریٹ 2200 روپے مل رہا ہے۔ جب کسان کو گندم کا ریٹ صحیح ملا تو 6.5 فیصد گروتھ دی۔ آج مکئی، چاول اور دیگر اجناس کی امپورٹ بڑھ گئی ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں اجناس امپورٹ کرنا پڑتی ہیں۔ آج ہم سارے بیج باہر سے منگواتے ہیں، گندم کٹائی کے لیے تیار ہے لیکن نرخ کا پتہ نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت نے فیصلہ کیا اور صوبہ بندی، ضلع بندی ختم کر دی، اب حکومت فیصلہ کرے کہ ایک سال روٹی اور آٹے کا ریٹ طے نہیں کریں گے۔ 30 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ ہے جس میں زراعت کا بڑا حصہ ہے۔ آٹے کا ریٹ طے ہے لیکن چینی کا ریٹ طے نہیں ہے۔ چینی کا ریٹ 60 روپے تک بڑھا دیا گیا، آٹے کے ریٹ کیوں نہیں بڑھا رہے؟ ہم اس حکومتی دوہرے معیار کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘

گندم کٹائی کی تیاریاں

دوسری جانب پنجاب اور سندھ میں گندم کی کٹائی کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی سرکاری سطح پر متروکہ وقف املاک بورڈ کے زیر انتظام بیساکھی میلہ کی تقریبات آج جمعرات سے شروع ہو رہی ہیں، جن میں شرکت کے لیے انڈیا سے واہگہ بارڈر کے راستے سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری مزارات پنجاب، سیف اللہ کھوکھر نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ ’سکھ یاتریوں کو پاکستان میں قیام، لنگر، ٹرانسپورٹ، میڈیکل کی سہولیات فراہم کرنے کے بہترین انتظامات کیے گئے ہیں۔ گرمی کی شدت بڑھنے کے باعث یاتریوں کی شربت اور کھانے سے تواضع کی گئی ہے۔ مہمانوں کا پہلا گروپ پاکستان آمد کے بعد واہگہ بارڈر سے گوردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال روانہ ہو گا۔ دوسرا گروپ پاکستان آمد کے بعد واہگہ بارڈر لاہور سے گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور روانہ ہو گا۔‘

سیف اللہ کے بقول، ’یاتریوں کے دونوں گروپ 12 اپریل کو ننکانہ صاحب پہنچیں گے۔ بیساکھی کی مرکزی تقریب 14 اپریل کو گوردوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب میں ہو گی۔ انڈین سکھ یاتری 17 اپریل کو لاہور پہنچیں گے اور 19 اپریل کو واہگہ بارڈر سے انہیں واپس روانہ کیا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے ان یاتریوں کو خصوصی طور پر 6751 ویزے جاری کیے۔ وفاقی وزارت مذہبی امور اور متروکہ وقف املاک بورڈ کی درخواست پر شیڈول سے 3751 زائد ویزے خصوصی طور پر جاری کیے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان