پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں جمرات کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہونے والی قومی کانفرنس میں اسرائیلی مصنوعات اور اس کے ساتھ کاروبار کرنے والے افراد کے بائیکاٹ کا متفقہ اعلان کیا گیا ہے جبکہ جمیعت علمائے اسلام نے 13 اپریل کو کراچی میں ’فلسطین ملین مارچ‘ کا بھی اعلان کیا۔
مجلس اتحاد امت پاکستان کے زیر اہتمام 10 اپریل کو اسلام آباد میں ہونے والی قومی کانفرنس میں ’فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داری‘سے متعلق اجلاس میں ’اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کرنے والے ممالک سے غیر مشروط جنگ بندی تک تعلقات منقطع‘ کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں واقع پاک چین فرینڈشپ سینٹر میں منعقدہ قومی کانفرنس میں پاکستان بھر سے دینی جماعتوں اور تنظیموں کے قائدین شریک ہوئے، جہاں ’فلسطینیوں کی بحالی کے لیے فوری فنڈ قائم کرنے اور متاثرین تک اس کی ترسیل کا انتظام‘ کرنے اور جمعہ کو ’یوم مظلومین و محصورین فلسطین‘ کے عنوان سے منانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کی بھی شدید مذمت کی گئی جس میں انہوں نے ’فلسطینیوں کو اپنا آبائی وطن چھوڑنے اور ہجرت کرنے‘ کا کہا گیا تھا۔
کانفرنس کے بعد جاری اعلامیے کے مطابق ’اسرائیلی کے ساتھ کاروبار کرنے والے اداروں، ان کی مصنوعات کا عالمی سطح پر بائیکاٹ” کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ جو افراد ایسی مصنوعات نہ ہٹائیں، ان کے مالکان کے بائیکاٹ کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ’آج مسلمان حکمرانوں کو احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ امت مسلمہ ان سے کیا چاہتی ہے۔
’ہماری حکومت امت مسلمہ کے بجائے امریکہ کی خوشنودی میں لگی ہے۔ آزادی کا حق نہ کشمیری سے چھینا جا سکتا ہے اور نہ فلسطینیوں سے۔‘
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں ہم 13 اپریل کو فلسطین ملین مارچ کرنے جا رہے ہیں، جبکہ ہر ضلع کے ہیڈ کوارٹرز میں کل جمعہ (11 اپریل) کو اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہونے چاہییں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ’آج کا اجتماع روایتی اجتماع نہیں ہے۔ امت پر عملی جہاد فرض ہو چکا ہے، مسلمان جس طرح بھی ممکن ہو جہاد میں شریک ہوں۔ اسرائیل ایک ریاستی دہشت گرد ہے، ان کی تاریخ قتل وغارت سے بھری ہوئی ہے۔‘
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ’کچھ سال قبل اسرائیل نام کی کسی ریاست کا وجود نہیں تھا۔ سال 1917 میں اسرائیلی ریاست کی تجویز کے وقت فلسطین میں صرف دو فیصد یہودی آباد تھے، یہ جھوٹ نہ پھیلاؤ کہ مسلمانوں نے خود زمینیں بیچیں۔‘
انہوں نے حکومت پاکستان سے اسرائیل سے متعلق موقف کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ریاست پاکستان کے موقف کو بھی جاننا چاہتے ہیں۔ آج پاکستان فلسطین کے مسلمانوں کے لیے جنگ نہیں کرتا تو پاکستان اپنے قیام کے نظریہ کی نفی کر رہا ہے۔‘
اجلاس میں شریک جامعہ دار العلوم کے سربراہ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ انہیں ’شرمندگی محسوس‘ ہو رہی ہے کہ سال بھر پہلے کنونشن سینٹر میں ایک اجتماع منعقد کیا گیا جہاں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ’ہم اہل فلسطین کے ساتھ ہیں اور ان کی جسمانی و مالی مدد کی جائے۔‘
مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ ’تقاضا تو یہ تھا کہ یہاں جمع ہونے کے بجائے ہمیں غزہ میں ہونا چاہیے تھا لیکن ہم عملی قدم کے بجائے آج بھی کانفرنس پر اکتفا کر رہے ہیں۔
’پوری امت مسلمہ آج صرف تماشائی بنی ہوئی ہے جو صرف مذمتی بیانات جاری کر رہی ہیں۔ ان میں سے بیشتر تو مذمتی بیانات تک نہیں دے سکتے۔‘