خیبر پختونخوا ضلع باجوڑ کے نوجوانوں نے آج خار کے مقام پر ایک احتجاج کیا جس میں انہوں نے انٹرنیٹ بندش، ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کے خلاف نعرے بلند کیے۔
جنوبی وزیرستان اور باجوڑ کے نوجوان پچھلے کئی ماہ سے انٹرنیٹ بندش کی سوشل میڈیا پر شکایت کرتے آرہے ہیں۔ اسی ضمن میں آج مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ آنے والی پولیو مہم کے دوران اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلائیں گے۔
دوسری جانب، آج 18 مئی بروز بدھ باجوڑ میں تحریک انصاف کے کارکن اور انصاف ویلفئیر ونگ کے نائب صدر منصور خان بھی نامعلوم افراد کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے گئے۔
باجوڑ میں مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، صرف دو سال کے دوران 17 سے زائد لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ہیں، جن میں مولانا عبدالسلام، جمعیت العلمائے اسلام کے قاری الیاس، ان کے بھائی قاری سلطان، جے یو آئی ہی کے مفتی شفیع اللہ، عوامی نیشنل پارٹی کے لیاقت، اے این پی ہی کے ملک عبدالغنی خان، شاہ خالد اور ان کے چچازاد، جب کہ دیگر شہریوں میں ریاض اللہ، زبیر خان، پولیو ورکر عبداللہ اور واجد مہمند شامل ہیں۔
ان کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کے ہلاک شدگان میں علی گوہر، قاری فضل سبحان، عمر خان، بخت شاہ جبکہ تازہ ترین واقعے میں پی ٹی آئی کے منصور خان شامل ہیں۔
خار میں آج ہونے والے احتجاج کے دوران مظاہرین کا کہنا تھا کہ باجوڑ میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے بطور خاص نوجوان طبقہ مایوسی کا شکار ہوتاجارہا ہے۔
علاقہ ڈپٹی کمشنر ڈپٹی کمشنر افتخار عالم کے مطابق ’تمام باجوڑ کے حالات خراب نہیں ہیں، صرف چند علاقے ایسے ہیں جہاں حالات ٹھیک نہیں ہیں اور وہیں انٹرنیٹ کی بندش کا مسئلہ بھی ہے۔‘
باجوڑ کےعلاقہ ماموند کے رہائشی لعل کریم ننگیال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’2008 جیسے حالات دوبارہ سر اٹھارہے ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ فرق صرف اتنا ہے کہ آپریشن کا اعلان نہیں ہوا ہے۔‘
’اسی بدامنی کی وجہ سے انٹرنیٹ کی بھی بندش ہے، جو کئی ماہ سے بند ہونے کی وجہ سے طالبعلموں، موبائل فرینچائزز اور کاروباری طبقے کو نقصان پہنچا رہی ہے۔‘
احتجاج کرنے والوں میں شامل محمد اکبر نے کہا کہ 2013 سے 2018 تک باجوڑ میں امن تھا، اور وہ علاقے جو 2008 میں مکمل طور پر مسمار ہوچکے تھے، عوام نے دوبارہ آباد کرلیے۔ ’لیکن اب دوبارہ بم بلاسٹ معمول بنتے جارہے ہیں،کالعدم تنظیمیں واپس آگئی ہیں، چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ بس 2008 کی طرح جہاز نہیں اڑ رہے ہیں۔‘
ان حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے باجوڑ کے صحافی بلال یاسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہوا، اور قبائلی اضلاع میں پولیس نظام متعارف ہوا تو لوگوں کی توقعات تھیں کہ امن آئے گا۔ ’تھانے لائے گئے، جن میں خواتین پولیس بھی آئیں۔ حتیٰ کہ انسداد دہشتگردی کا دفتر قائم کیا گیا۔ بڑی ٹریننگ اور میٹینگز ہوئیں لیکن بدقسمتی سے امن نہ آیا۔ بلکہ پہلے سے زیادہ بدامنی شروع ہوئی۔ جتنے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوئے، آج تک کسی ملزم کا پتہ نہ چل سکا۔‘
بلال یاسر نے کہا کہ ان حالات کی وجہ سے اب باجوڑ کے عوام میں بے یقینی اور مایوسی پھیل رہی ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ آیا ہجرت کریں یا کیا کریں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پہلی امید انضمام کی صورت میں پیدا ہوئی تھی اور دوسری امید تب پیدا ہوئی جب افغانستان میں پاکستان کی حمایت یافتہ حکومت اقتدار میں آئی، ’تب توقعات مزید بڑھ گئیں کہ اب مکمل طور پر امن آئے گا، لیکن وہی پرانے حالات ہیں، کچھ نہیں بدلا۔‘
باجوڑ کے حوالے سے وہاں کے ضلعی پولیس افسر کا موقف سننے اور ان کی بدامنی کے خلاف کارروائیوں اور آئندہ کا لائحہ عمل جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ڈی پی او صمدخان سے رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی، تاہم ان کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی۔
ڈپٹی کمشنر افتخار عالم نے مزید بتایا کہ باجوڑ کے حالات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے، جب کہ حقیقت میں پہلے سے کہیں زیادہ امن آیا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج کے ٹارگٹ کلنگ کے واقعے پر کافی پیشرفت ہوچکی ہے اور اگلے چار پانچ دن میں ملزمان کے نام بھی ظاہر کردیے جائیں گے۔
ڈی سی افتخار عالم نے کہا کہ انہوں نے آج ہی باجوڑ کے تمام موبائل فرینچائز والوں سے بھی میٹنگ کی، اور انہیں اپنی سروس ان تمام علاقوں میں بحال رکھنے کی ہدایات دیں، جہاں حالات ٹھیک ہیں۔
واضح رہے کہ انٹرنیٹ کی بندش کا مسئلہ جنوبی وزیرستان میں بھی اٹھایا جارہا ہے، جہاں کے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اس مسئلے سے ان کے کئی ضروری کام ادھورے رہ جاتے ہیں، اور صرف ایک ای میل کی خاطر انہیں ڈیرہ اسماعیل خان سفر کرنا پڑتا ہے۔