پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان اور روس کے تعلقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس کا دفاع کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے جمعرات کی رات نیو یارک میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہا: ’جہاں تک سابق وزیراعظم کے دورہ روس کی بات ہے، میں بالکل سابق وزیراعظم کے دورے کا دفاع کروں گا۔‘
انہوں نے کہا: ’پاکستان کے وزیراعظم نے یہ دورہ خارجہ پالیسی کے مطابق کیا۔‘
بلاول بھٹو نے اسی حوالے سے مزید کہا: ’کوئی بھی نجومی نہیں ہے، کسی کے پاس چھٹی حس نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمیں ممکنہ طور پر علم ہوتا کہ موجودہ تنازع شروع ہونے جا رہا ہے۔‘
’میرے خیال میں پاکستان کو ایسے بے ضرر عمل کے لیے سزا دینا صحیح نہیں۔‘
’نئی دہلی کے ساتھ مذاکرات کی گنجائش بہت کم‘
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس کے دوران کشمیر کے تناظر میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو ’پیچیدہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی کے ساتھ مذاکرات کی گنجائش بہت کم ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دورہ امریکا کے دوران جمعرات کو اقوام متحدہ ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ایسے ملک کے ساتھ معاملات مشکل ہیں جو’اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر میں نسل پرستی پر مبنی پالیسی نافذ کرنے میں مصروف ہے۔‘
صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا: ’یہ کہنے کے بعد ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ معاشی سرگرمی، مذاکرات اور سفارت کاری بالآخر وہ طریقے ہیں جن سے کام لے کر ملک ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہوئے مسائل حل کرتے ہیں۔‘
بقول بلاول: ’میں نے محسوس کیا ہے، خاص طور پر اس وقت، کہ اس جارحانہ اور دشمنی پر مبنی رویے کی وجہ سے ایسی باتوں کا امکان بہت محدود ہے۔‘
واضح رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی قوم پرست حکومت نے 2019 میں اپنے زیر انتظام کشمیر، جہاں مسلمان آبادی کی اکثریت ہے، کو اس کی خصوصی خود مختار حیثیت سے محروم کر دیا تھا۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہندو بھی آباد ہیں لیکن وہ اقلیت میں ہیں۔
India's past actions make it very difficult for us to hold a dialogue with a country which is implementing racist policies in Indian Occupied Jammu & Kashmir and not abiding by the resolutions of United Nations: @BBhuttoZardari#PakFMAtUN
— PPP (@MediaCellPPP) May 19, 2022
6/16 pic.twitter.com/2ExBhHZrCG
بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے بارے میں بھی شکایت کی، جن کے حوالے سے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں مسلمان ووٹوں کی تعداد میں کمی آئے گی۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے عہدہ سنبھالنے کے ایک سال بعد 2015 میں پاکستان کا اچانک دورہ کیا تھا لیکن حالیہ سالوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات خراب ہوئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے نئے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ زیادہ حقیقت پسندانہ اقدامات کی امید ہے، جن کے سیاسی خاندان کی تاریخ ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ سفارتی سطح پر معاملات کو نمٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مزید پڑھیے: سرحد پارسے دہشت گردی: ’پاکستان طالبان کی طرف دیکھ رہا ہے‘
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران دیگر معاملات پر بات چیت کے علاوہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بھی گفتگو کی اور کہا کہ ’ہمارے علاقے کے سیاسی و جغرافیائی تناطر میں امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہت زیادہ خرابی پیدا ہوئی۔ خاص طور پر افغانستان کے حالات اور واقعات کی وجہ سے۔‘
Pakistan is not insecure about its relationship with the US and we believe the world is big enough for both Pakistan and India to exist. We believe there is a lot of potential for #PakUS relations and it's to the benefit of both countries. @BBhuttoZardari#PakFMAtUN
— PPP (@MediaCellPPP) May 19, 2022
15/16 pic.twitter.com/hJdAOU9fmT
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن سے ملاقات کے ایک دن بعد بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا: ’ہم ایک نکاتی ایجنڈے کے تعلقات یعنی ’کچھ لو اور کچھ دو ‘کی پالیسی کی جائے زیادہ وسیع البنیاد تعلقات کی طرف جانا چاہیں گے، جس میں تجارت پر خصوصی زور دیا جائے گا۔‘
بلاول بھٹو زرداری امریکہ کی طرف سے بلائے گئے وزارتی اجلاس میں شرکت کے لیے بدھ (18 مئی) کی رات نیویارک پہنچے، جہاں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں امریکی ہم منصب اینٹنی بلنکن کے ساتھ ہونے والی اپنی پہلی ملاقات کے آغاز میں انہوں نے امریکی اقدام کا خیرمقدم کیا تھا۔
اس موقعے پر انہوں نے کہا تھا: ’میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان روابط بڑھانے، تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے اور سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کے مل کر کام کے لیے مواقعے پیدا کرنے کی خاطر امریکی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے کے موقع کا بھی منتظر ہوں۔‘
جس پر اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا: ’ہم اپنی توجہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان معاشی اور تجارتی تعلقات اور علاقائی سلامتی کو مضبوط بنانے کے عمل پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔‘