شعبہ توانائی کے ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی ہے کہ ملک میں بجلی کا شارٹ فال پانچ ہزار 53 میگا واٹ پر پہنچ گیا ہے جو ملک کے دیہی اور شہری علاقوں میں گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا سبب بن رہا ہے۔
محکمہ توانائی کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 21 ہزار 447 میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے جبکہ ملک بھر میں طلب 26 ہزار500 میگا واٹ ہے۔
دوسری جانب سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے اپریل کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی مہنگی کرنے کی درخواست دائر کردی ہے جس کے بعد بجلی چار روپے پانچ پیسے مہنگی ہونے کا امکان ہے۔
سی پی پی اے کے مطابق اپریل میں پانی سے 18.55 فیصد کوئلے سے 16.74 فیصد اور فرنس آئل سے 12.07 فیصد بجلی پیدا کی گئی۔
فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی کی فی یونٹ لاگت 28 روپے 19 پیسے فی یونٹ رہی، اپریل میں مقامی گیس سے 9.85 فیصد، درآمدی ایل این جی سے 19.42 فیصد، جوہری ایندھن سے 17.37 فیصد اور ہوا سے 3.59 فیصد بجلی پیدا کی گئی۔
اگر صرف لاہور اور اس کے گردو نواح کی بات کریں تو لیسکو کی ڈائریکٹر افشان مدثر کے مطابق لاہور میں جمعرات کے روز گذشتہ چار برس میں بجلی کی طلب سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی جبکہ شارٹ فال بھی سب سے زیادہ رہا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’لیسکو بجلی پیدا نہیں کرتا بلکہ اس کو تقسیم کرتا ہے۔ ہمیں جو بجلی ملے گی وہ ہم آگے پہنچا دیں گے۔ وہ ہر روز ایک حساب سے نہیں ملتی بلکہ جتنی بجلی پیدا ہو رہی ہے اس کے حساب سے ملتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا شارٹ فال کی وجہ ایک تو موسم ہے کیوں کہ ایک دم سے گرمی میں اضافہ ہوا ہے دوسرا مسئلہ ہمیں بجلی کی پیداوار کا ہے ہمارے پاور پلانٹس بند ہیں، ہائیڈل ہم ابھی پیدا کر نہیں سکتے اس لیے طلب اور رسد میں جو وقفہ آگیا ہے وہ ایک وجہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’جمعرات کولیسکو کی سب سے زیادہ طلب رہی 5173 میگا واٹ اور یہ طلب پورے لاہور کی تھی جس میں آٹھ سرکلز اور پانچ ڈسٹرکٹس آتے ہیں۔
شعبہ توانائی کے ایک اور اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’پہلے مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے پاور سٹیشنز بند ہوئے تھے جس کی وجہ سے طلب اور رسد میں مسئلہ آرہا تھا۔ پاور سٹیشنز کے ایس او پیز ہوتے ہیں کہ انہوں نے پیک ٹائم کی تیاری کرنی ہوتی ہے اور وہ پیک ٹائم شروع ہوتا ہے جون سے اور خاص طور پر برسات کے بعد۔ اس وقت ہماری فصلوں کا موسم بھی شروع ہوجاتا ہے اور ڈیموں کا پانی چھوڑ دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پانی نہروں میں آجاتا ہے اس سے ہائیڈل پاور جنریشن بڑھ جاتی ہے اور ڈیمانڈ پوری ہوتی رہتی ہے۔‘
اہلکار کے مطابق: ’ڈیم ابھی آپ کھول نہیں سکتے ورنہ پانی ضائع ہو جائے گا۔ تیل جو کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے مل نہیں رہا۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ پاور سٹیشنز بند ہیں لیکن پاور سٹیشنز بغیر تیل کے بجلی کی پیداوار کے لیے تیاری کیسے کریں گے؟ ان کا کہنا تھا انہیں چلانے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟‘
حکومت کا موقف
وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر نے بھی گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں جہاں بجلی کو موجدہ صورتحال کا مدعا سابق حکومت پر ڈالا وہیں ان کا کہنا تھا کہ کوئلے کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے کچھ پاور پلانٹس کو بند کرنا پڑا۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو ادائیگیاں نہیں کیں۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کہ ایندھن کا بحران کم ہو جائے گا کیوں کہ حکومت نے جولائی اور اگست کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں اور پیٹرولیم ڈویژن نے چار گیس کارگوز کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔
شارٹ فال پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حویلی بہادر شاہ پاور پلانٹ کی بندش کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوا ہے جس کی مرمت کے لیے اسے بند کرنا پڑا۔
بجلی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: ’قیمتوں پر کنٹرول کی وجہ سے خسارہ بڑھ رہا ہے۔ ہماری حکومت توازن اور تسلسل کی طرف بڑھنا چاہتی ہے۔‘
انہوں نے میڈیا کو بتایا گیا کہ نومبر میں 400 یونٹ گیس کی ضرورت تھی جبکہ جنوری، فروری اور مارچ میں اضافی 500 یونٹس کی ضرورت تھی لیکن اس میں سے صرف آدھی خریدی گئی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’ہم تمام ایل این جی لے آئے ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہے۔‘
کیا شدید گرمی لیسکو کے نظام میں تکنیکی خرابیاں بھی پیدا کر رہی ہے؟
لیسکو کے افسر کا کہنا تھا کہ ’گرمیوں میں ٹرانسفارمرز خراب ہوتے ہیں کیوں کہ ایک تو لوڈ بڑھتا ہے پھر بار بار لائٹ آنے جانے سے بھی ٹرانسفارمرز اڑ جاتے ہیں اور اگر ایک وقت میں چار سے پانچ ٹرانسفارمرز اڑ جائیں تو انہیں ٹھیک کرنے میں بھی گھنٹوں کا وقت درکار ہوتا ہے جس کے لیے ہمیں بجلی بند رکھنی پڑتی ہے۔‘
اس حوالے سے لیسکو کی ڈائریکٹر افشان مدثر کا کہنا تھا کہ لیسکو کی لائنز انڈر گراؤنڈ نہیں ہیں بلکہ اوور ہیڈ ہیں اس لیے ان لائنز کو جو 132 کے وی یا 11 کے وی کی لائنز ہوتی ہیں۔‘
’ہم اس موسم کے لیے ستمبر اکتوبر کے مہینے میں تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اکثر جب پورے پورے دن کے لیے بجلی بند ہوتی ہے تو ہم انہیں تاروں پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں ٹرانسفارمرز کی بات آتی ہے تو اس میں ہوتا یہ ہے کہ آبادی روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور اسی حساب سے ہمارے صارفین میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‘