شمالی بھارت کے شہر وارانسی (بنارس) میں تقریباً تین صدیوں سے مسلمانوں نے خدا اور ہندوؤں نے دیوتا کی عبادت ایک ایسی مسجد اور مندر میں کی ہے جنہیں ایک دیوار نے الگ کر رکھا ہے۔
بہت سے لوگ اسے ایسے ملک میں مذہبی بقائے باہمی کی مثال کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں برادریوں کے درمیان ہلاکت خیز تشدد کے واقعات عام ہیں۔
متنازع عدالتی مقدمے کی وجہ سے اب یہ بقائے باہمی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ رواں ماہ کے شروع میں مقامی عدالت نے ہندوؤں کے ایک گروپ کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت شروع کی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ہندوؤں کو گیان واپی مسجد کے احاطے میں پوجا کی اجازت دی جائے۔
اس مقصد کے لیے دلیل دی گئی ہے کہ یہ مسجد قرون وسطیٰ کے ایک مندر کے کھنڈرات پر بنائی گئی جو مغل بادشاہ نے مسمار کر دیا تھا۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ کمپلیکس میں اب بھی ہندو مورتیاں اور نقش موجود ہیں۔
مسجد کی انتظامیہ نے ہندوؤں کے اس دعوے کی مخالفت کی ہے۔
یہ قانونی جنگ اس بڑھتے ہوئے رجحان کی تازہ ترین مثال ہے جس میں ہندو گروپوں نےعدالتوں میں درخواست دائر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ زمین انہیں دی جائے جس پر ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ ان کی ہے۔
مزید پڑھیے: بھارت: ’مندر کی سکیورٹی‘ کے نام پر مسلمان خاندانوں کا ’جبری انخلا‘؟
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مقدمات کے نتیجے میں مسلمانوں میں مذہبی مقامات کی حیثیت کے حوالے سے خوف پیدا ہوتا ہے۔ اقلیتی برادری مسلمان جو حالیہ برسوں میں ان ہندو قوم پرستوں کے حملوں کی زد میں آئے ہیں جو سرکاری طور پر سیکولر بھارت کو اعلانیہ طور پر ہندو ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اور مبصر نیلانجن مکھوپادھیائے کے بقول: ’بہت ساری درخواستوں کے ساتھ عدالتوں پر یلغار کا مقصد مسلمانوں کو قابو میں رکھنا اور برادریوں کے درمیان کشیدگی برقرار رکھنا ہے۔ یہ مسلمانوں کو یہ بتانے کا ایک طریقہ ہے کہ بھارت میں ان کے عقیدے کا عوامی سطح پر اظہار مزید قبول نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ ماضی میں قرون وسطیٰ کے مسلمان حکمرانوں کی طرف سے ہندوؤں کی جو مبینہ توہین کی گئی تھی اب اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔‘
ہندومت کے مقدس ترین شہروں میں سے ایک وارانسی میں 17ویں صدی کی گیان واپی مسجد سے متعلق عدالتی مقدمہ کئی لحاظ سے بھارت کے موجودہ مذہبی کشیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔ مؤرخین میں بڑے پیمانے پر تسلیم شدہ اتفاق رائے یہ ہے کہ مغل بادشاہ اورنگزیب نے ہندو دیوتا شیو سے منسوب مندر منہدم کر کے اس کی جگہ مسجد تعمیر کروائی۔
مسلمان اور ہندو دونوں برادریاں ماضی میں اپنے دعوؤں پر قائم رہی ہیں لیکن یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ تنازع مزید نہ بگڑے۔ صورت حال گذشتہ ہفتے اس وقت تبدیل ہوئی جب وارانسی کی ایک مقامی عدالت نے مسجد کا سروے کرنے کا حکم دیا۔ اس سے پہلے پانچ ہندو خواتین نے وہاں پوجا کی اجازت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: بابری مسجد کے بعد کیا اب مزید مسجدیں گریں گی؟
ہندو خواتین کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل ہری شنکر جین کے مطابق ایک ویڈیو سروے میں مسجد کے حوض کے اندر سے پتھر کا ایک لمبوترا ٹکڑا ملا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ہندو دیوتا شیو کی علامت ہے۔ مسلمان یہ حوض نماز پڑھنے سے پہلے وضو کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
جین کہتے ہیں کہ ’جس زمین پر مسجد تعمیر کی گئی وہ ہندوؤں کی ہے اور ہمیں واپس کر دی جانی چاہیے۔‘
مسجد کے نمائندوں نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔ مسجد کی کمیٹی کے وکیل رئیس احمد انصاری نے کہا کہ حوض سے ملنے والا مبینہ پتھر ایک فوارے کی بنیاد ہے۔
مبینہ طور پر ہندو علامت کی دریافت پر وارانسی کی مقامی عدالت نے احاطے کو سیل کرنے کا حکم دے دیا اور اس کے اندر مسلمانوں کے بڑے اجتماعات پر پابندی لگا دی۔
بعد ازاں بھارتی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی۔ عدالت نے مقامی حکام کو یہ علاقہ سیل کرنے اور اس کی حفاظت کا حکم بھی دیا جہاں پتھر کی شافٹ ملی تھی۔ مسلمانوں کو مسجد کے اس حصے سے بے دخل کر دیا گیا جسے وہ رواں ماہ تک استعمال کرتے آ رہے تھے۔
مزید پڑھیے: بابری مسجد گرا کر درجنوں مساجد بنانے والے 'بلبیر سنگھ' کون تھے؟
مسجد اور سروے کے تنازعے کو اب وارانسی کی ایک اعلیٰ عدالت دیکھ رہی ہے جس کی سماعت جمعرات کو جاری رہی۔ مسلم فریق کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے سروے کی قانونی بنیاد پر سوال اٹھائے ہیں۔
انہوں نے دلیل دی ہے کہ یہ قانون کے خلاف ہے اور ایک ایسی مثال ہے جسے سپریم کورٹ نے حال ہی میں 2019 میں برقرار رکھا۔
بھارت کے ہندو قوم پرستوں نے طویل عرصے سے دعویٰ کر رکھا ہے کہ قرون وسطیٰ کی ہزاروں مساجد ان ممتاز مندروں کی جگہوں پر بنائی گئیں جنہیں مغل حکمرانوں نے منہدم کر دیا تھا۔
بہت سے مورخین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ دراصل چند درجن مندر گرائے گئے تھے لیکن زیادہ تر سیاسی وجوہات کی بنا پر نہ کہ مذہبی۔
1980 کی دہائی کے آخر میں ہندو قوم پرست گروپس نے ان مساجد پر دوبارہ دعوے کی مہم شروع کر دی۔ ایسی ہی ایک مہم کا اختتام 1992 میں ہندو ہجوم کے ہاتھوں ایودھیا کے شمالی قصبے میں 16ویں صدی کی بابری مسجد کی تباہی کے ساتھ ہوا۔
ہندوؤں کا ماننا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ ان کے دیوتا رام کی جائے پیدائش تھی۔ اس کے انہدام نے پورے بھارت میں برادریوں کے درمیان بڑے پیمانے پر تشدد کو جنم دیا جس میں دو ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) قومی سطح پر نمایاں ہوئی۔
بھارت کی سپریم کورٹ کے 2019 کے ایک متنازع فیصلے میں متنازع زمین ہندوؤں کے حوالے کرنے کے بعد اب بابری مسجد کی جگہ پر عظیم الشان ہندو مندر تعمیر کیا جا رہا ہے، تاہم عدالت نے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ اس حکم کو مثال کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس طرح کے مزید متنازع مقدمات کی راہ ہموار کی جائے گی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں 1991 کے عبادت گاہوں کے قانون کا حوالہ دیا جو عبادت گاہ کو تبدیل کرنے سے روکتا ہے اور یہ شرط عائد کرتا ہے کہ اس کی وہی مذہبی حیثیت برقرار رکھی جائے جیسی کہ 15 اگست 1947 کو ’موجود تھی۔‘ یہ وہ دن ہے جب بھارت نے انگریز سامراج سے آزادی حاصل کی۔
مسلمان فریق کی نمائندگی کرنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ گیان واپی مسجد کا مقدمہ اسی عدالتی عزم کے خلاف ہے۔
مسجد کمیٹی کی نمائندگی کرنے والے وکیل نظام پاشا کے مطابق ’اس قانون کو تنقید سے بالاتر سمجھا گیا کیوں کہ یہ پرانے تنازعات کو دوبارہ نہ کھولنے کے لیے تھا لیکن مسجد کے سروے کی اجازت دینا بالکل ایسا ہی کر رہا ہے۔ آپ پرانے زخم تازہ کر رہے ہیں۔ یہ قانون ایسا کرنے سے روکنے کے لیے تھا۔‘
گیان واپی مسجد کا معاملہ نریندر مودی کی پارٹی کے بیانیے میں بھی فٹ بیٹھتا ہے جس نے طویل عرصے سے بھارت کے گم شدہ ہندو ماضی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے مہم چلا رکھی ہے۔ پارٹی کے بہت سے رہنماؤں نے کھلے عام کہا ہے کہ وہ اس طرح کی قانونی لڑائیوں کو آگے بڑھائیں گے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی ایسا ان ہندو قوم پرست گروپوں کو مدد فراہم کرکے کرتی ہے جو اکثر عدالت میں ایسے مقدمات لڑتے ہیں۔ مودی کی پارٹی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لوگوں کو عدالتوں میں جانے سے نہیں روک سکتی۔
پاشا ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس طرح کے عدالتی مقدمات دائر کرنا ایک ’بہت احتیاط سے سوچا گیا طریقہ کار‘ ہے جس کا مقصد ہندو قوم پرستوں کو تقویت دینا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان مقدمات کو عام ہندو شہری مدعی کے طور پر لاتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ وہ ایک دیوتا کے پجاری ہیں۔ وہ متنازع مقامات پر پوجا کا حق مانگتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک بار جب معاملہ عدالت میں چلا جاتا ہے تو ہندو مدعی اس کے بعد مقامات تلاش کرنے پر زور دیتے ہیں اور ایسے شواہد پیش کرتے ہیں جو میڈیا بیانیہ بنانے اور عوام کو متحرک کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
پاشا نے گیان واپی مسجد کیس کے بارے میں کہا کہ ’پہلے سے ہی میڈیا سے متاثرعوام کو اس بات پر قائل کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ سچ نہیں ہے بلکہ یہ ایک فوارہ ہے۔‘
دریں اثنا ہندو قوم پرستوں نے مزید ایسی مساجد پر نظریں جمانا شروع کر دی ہے۔
گذشتہ ہفتے ایک مقامی عدالت نے اتر پردیش کے متھرا شہر میں مندر کے ساتھ واقع ایک اور مسجد کی جگہ سے متعلق مقدمے کی سماعت کے لیے درخواست قبول کی۔
مسجد کے بارے میں کچھ ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندو دیوتا کرشن کی جائے پیدائش پر تعمیر کی گئی ہے۔ اسی طرح نئی دہلی کی ایک عدالت نے اس ہفتے ایک مندر کی بحالی پر دلائل سنے۔
ہندو درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ مندر یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی جگہ قطب مینار کے مقام پر تعمیر کی گئی مسجد کے نیچے موجود تھا۔ عدالت نے کہا کہ وہ آئندہ ماہ اس مقدمے کا فیصلہ سنائے گی۔
توقع ہے کہ بہت سے دوسرے مقدمات کا فیصلہ ہونے میں برسوں لگیں گے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ مودی کی پارٹی کی مدد کریں گے کیوں کہ وہ 2024 میں انتخابات کی تیاری کر رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار مکھوپادھیائے کے بقول: ’یہ مقدمات ہندو قوم پرستوں کو ان کی تقسیم کرنے کی سیاست میں مدد فراہم کرتے ہیں اور اسی کی انہیں ضرورت ہے۔‘