پاکستانی فلم ’باجی‘ اپنی نوعیت اور کہانی کےاعتبار سے ایک شاندار فلم ہے جس میں روایتی فلمی چمک دمک، کے ساتھ ساتھ جاندار کردار اور ایک مکمل کہانی موجود ہے جو اسے حالیہ تاریخ کی بہت سی فلموں سے ممتاز کردیتی ہیں۔
’باجی‘ لالی ووڈ کے زوال اور ابھرتی ہوئی پاکستانی فلمی صنعت کے زمانے کی کہانی ہے جو فلموں سے دلچسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔
’باجی‘ کہانی ہے فلمی صنعت کے ایک بڑے نام میرا کی، جن کا فلم میں نام شمیرا ہے۔ پاکستانی فلمی صنعت سے شغف رکھنے والے تمام افراد جانتے ہیں کہ میرا کی زندگی میں کیسے کیسے نشیب و فراز آئے اور کون کون سے اسکینڈلز کا انہیں سامنا رہا۔ اس فلم کو میرا کی زندگی کے ریفرنس سے ہی فلمایا گیا ہے۔
’باجی‘ فلمی دنیا میں پس پردہ جاری معاملات اور اس سے جڑے تلخ و شیریں حقائق کو پیش کرتی ہے اور دیکھنے والوں کو پس پردہ دنیا میں جھانکنے کااچھا موقع فراہم کرتی ہیں۔
درحقیقت یہ فلم ایک تھرلِّر ہے، اور اس کا اندازہ آپ کو فلم کے اختتام پر ہی ہوگا، جب کہانی کا ایک انوکھا موڑ آپ کو پہلو بدلنے پر مجبور کردے گا۔
باجی زوال کا شکار ہونے والی ایک اداکارہ شمیرا (میرا) کی کہانی ہے جس کے ہاتھ سے ایک ایک کرکے فلمیں جارہی ہیں اور وہ اپنا کیریئر بچانے کےلیے فکرمند ہے۔ ایسے میں ہالی وڈ سے ایک جاذب نظر ہدایتکار روحیل (عثمان خالد بٹ) آتا ہے جوپاکستان میں فلم بنانا چاہتا ہےاور وہ شمیرا کو کاسٹ کرلیتا ہے۔
اگر فرداَ َ فرداَ َ اداکاری کی بات کی جائے تو میرا نے بطور شمیرا خود کو کامیابی سے پیش کیا ہے۔ انہوں نے فلم میں وہی گلیمرس اور بےباک انداز اپنایا ہے جو کبھی ان کا خاصہ تھا۔
اس فلم میں آپ کوکہیں کہیں فلم ’کھلونا‘ اور ’انتہا‘ والی میرا کی جھلک ضرور نظر آئے گی۔ میرا کے اسٹیج پر مجرے کا سین ہو یا فلم کی شوٹنگ میں گانا فلمانا یا پھر پارٹی میں ناچنے کا سین ہو، میرا نے اپنی پوری صلاحیت کو بروئے کار لاکر یہ فلم کی ہے اور اس کا کریڈٹ بہرحال ہدایت کار ثاقب ملک کو جاتا ہے جنہوں نے طویل عرصے کے بعد میرا کو ایسا کردار دیا جس میں وہ کچھ کرسکتی تھیں۔
آمنہ الیاس نے بطور نیہا اپنے کردار میں رنگ بھردئیے ہیں۔ ایک بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی لڑکی کی زندگی کا سفر، جس کے مقاصد بہت بلند ہیں، وہ کس طرح ایک فلمسٹار کی مینیجر بنتی ہے اور پھر اس کی زندگی ایک نئے سے نیا موڑ لیتی ہے۔ آمنہ کا سادہ لڑکی سے ایک گلیمرس لڑکی میں بدل جانے کا سفر بہت متاثرکن ہے۔
عثمان خالد بٹ کا فلم میں کردار تہہ در تہہ ہے۔ ایک چارمنگ ہدایت کار ، ایک لوور بوائے اور ایک فلرٹ، جس کے کئی رنگ ہیں یہ کسی بھی فلم میں عثمان خالد بٹ کی اب تک سب سے بہترین اداکاری ہے۔
شمیرا کی بڑی بہن کے کردار میں نشو، لالی ووڈ کے روایتی ایجنٹ کے طور پر چاند کمال کے کردار میں نیر اعجاز اور شمیرا کے جنونی عاشق کے کردار میں علی کاظمی سمیت تمام کردار آپ کو حقیقت سے بہت قریب ملیں گے جنہیں آپ عام زندگی میں بھی کہیں نہ کہیں ملے ہوں گے یا جانتے ہوں گے۔ اس فلم میں آپ کو کئی مہمان اداکار بھی ملیں جو پاکستانی فلمی صنعت کا حصہ تھے یا ہیں۔
محسن عباس حیدر نے اپنے مختصر ترین کردار میں بھی خود کو منوالیا۔ اگرچہ ان کے صرف چند ہی سین ہیں مگر محسن نے بطور اجی جو نیہا سے محبت کرتا ہے ان تمام میں ظرافت اور بےساختگی بھردی ہے۔
’باجی‘میں مہوش حیات کےمبینہ اور متنازعہ آئٹم نمبر’گینگسٹرگڑیا‘ بطور آئٹم نمبر نہیں آیا بلکہ یہ فلم کی کہانی کا اہم حصّہ ہے۔ یہ گانا سینیما کی اسکرین کے حساب سے فلمایا گیا ہے، اس کا مکمل انداز و پیشکش سینیما کے بڑے پردے پر ہی محسوس ہوگی۔ اگرچہ اسے آئٹم نمبر کہا جارہا ہے مگر یہ آئٹم نمبر کی کسی بھی تعریف پر پورا نہیں اترتا اوریہ فلم دیکھ کرواضح ہوجائےگا۔ مہوش حیات نےایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ ابھی پاکستانی فلمی دنیا میں ان کے ہم پلّہ کوئی بھی نہیں ہے۔
ویسے یہ بات بھی کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ’گینگسٹر گڑیا‘بھارتی گلوکارہ سنیدھی چوہان نےگایا ہے اور ایسے وقت میں جب دونوں ملکوں میں تعلقات کشیدہ ہیں اور پاکستانی فنکاروں کے بھارت میں کام کرنے پر پابندی ہے تو ایسے وقت میں پاکستانی فلمی صنعت کی جانب سے یہ بہت اچھا اور مثبت قدم ہے۔
اس فلم میں ماضی کے دو مشہور ترین گانے ریمکس کیے گئے ہیں جن کا سینیما پر الگ ہی لطف ہے۔ یہ گانے آپ کو پاکستانی سینیما کے ماضی میں لے جاتے ہیں۔
’یہ آج مجھ کو کیا ہوا‘ جسے ناہید اختر نے1975 میں فلم ’نوکر‘ کےلیے گایا تھا اور یہ بابرا شریف پر فلمایا گیا تھا، اسے جمال رحمان نے ریمکس کرکے آئمہ بیگ اور نتاشا نورانی سے گوایا ہے۔ دوسرا گانا ’ڈونٹ بی سلی‘ جسے رونا لیلیٰ نے 1972 میں فلم ’سبق‘ کے لیےگایا تھااور اسے حسنہ پر فلمایا گیا تھا، اسے اب زیب بنگش نے گایا ہے۔ ان دونوں گانوں کی فلم بندی میں جدید انداز کے ساتھ ماضی کا رنگ بھی ڈالا گیا ہے جو بہت حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔
’باجی‘ ہدایت کار ثاقب ملک کی پہلی فلم ہے اور اس لحاظ سے یہ ایک بہترین کاوش ہے اور بلاشبہ یہ اس سال کی اب تک ریلیز ہونےوالی سب سے بہترین فلم ہے جس میں کہانی، اور خاص کر کردارسازی، عکس بندی اورگانوں سمیت ہرچیز کا خیال رکھا گیا ہے۔
اس فلم کے بارے میں ثاقب ملک نے کہا تھا کہ یہ پاکستانی سینیما کے ماضی کو ایک طرح سے خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش ہے اور یقیناَ َ وہ اس کوشش میں کامیاب رہے ہیں۔
باجی پاکستانی سینیما کے ماضی اور حال کی بڑے پردے پر بہترین عکاس ہے، مگر پھر بھی یہ فلمی دنیا میں پیش آنے والے واقعات، دھوکے، محبت، نفرت اور کشمکش سے بہت آگے کی کہانی ہے اور بلاشبہ یہ وہ فلم ہے جسے پاکستانی سینیما کہہ کر عالمی سطح پر پیش کیا جاسکتا ہے۔