یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
بیسویں صدی کے انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی نے بتا رکھا ہے کہ مفلسی حسّںِ لطافت کو مٹا دیتی ہے / بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔
یقیناً کئی وقت کی فاقہ کشی کے بعد کسی مفلس کو کھانا میّسر ہو جائے تو وہ چھری کانٹے کا استعمال تو نہیں کرے گا۔ صحرا کا پیاسا مسافر کسی چشمے پہ آ پہنچے تو گلاس نہیں ڈھونڈے گا، اپنے ہاتھوں کی اوک سے پیاس بجھانے کی سعی کرے گا۔
لیکن آج بات ان مستقل یا اکثر فاقے سہنے والوں کی نہیں ہو رہی جن کے کھانے پینے کے انداز کو ادب آداب سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ آج کا موضوع یہ ہے کہ اس سیانے طبقے کو کھانے کی شکل دیکھ کر کیا ہو جاتا ہے جن کے گھر دانے بھرے رہتے ہیں اور دسترخوان پر یا میز پر روزانہ انواع و اقسام کی بھری ڈشیں خالی ہونے کے لیے بار بار بھری جاتی ہیں اور جن کو خالی پیٹ والے مسکین ’رجّے پجّے‘ کہہ کر اونچی مسند پر بٹھاتے اور رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، پیٹ بھر کے کھانے والوں کی سیرابی زیادہ دیر قائم کیوں نہیں رہ سکتی؟
ابھی چند ہفتے پہلے کی بات ہے کہ ماہِ رمضان میں ہم مسلمانوں نے ہر سال کی طرح بساط بھر روزے رکھے۔ بہت سے نیک بخت تو ہر سال پورے پورے روزے رکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ دینی فرائض اور ثواب کے علاوہ دنیاوی طور پر بھی اس کے اثرات کو محسوس کرنا چاہیے۔ رمضان کے بعد بھی بھوک کی حالت میں صبر قائم رکھنے کی توقع کچھ غلط بھی نہیں لیکن مشاہدہ اس کے مکمل برعکس نہیں تو کافی حد تک مختلف ضرور ہے۔
کون یہ مشاہدہ نہیں رکھتا کہ کسی شادی یا ایسی ہی کسی تقریب میں میزوں پر کھانا لگتے ہی یا عوامی زبان میں کھانا ’کھلتے‘ ہی اچھے اچھے خوش لباس اور خوش اطوار مہمان ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ جیسے اس کے بعد کھانے کی ہڑتال کا اعلان ہونے والا ہو - اکثر ثابت قدم فریق کھانے کو کرچھوں سے ٹٹول کر پسندیدہ ’مالِ غنیمت‘ کا انبار پلیٹ میں جمع کر کے بھی مطمئن نہیں ہوتے اور بجائے اپنی کرسی پر واپس جانے کے وہیں کھڑے کھڑے تناول فرمانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ کھانے کی میز کو آتا ہوا راستہ تنگ ہی رہے مبادہ کوئی اور باقی مال پہ ہاتھ صاف کر جائے اور ان کی پلیٹ مالِ دِگر سے محروم رہ جائے۔
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ ایسے ’حملہ آوروں‘ کی ویڈیوز بنا کر ان کو دکھائی جائیں اور سب کے سامنے دکھائی جائیں تا کہ انہیں خبر تو ہو کہ وہ آئینہَ دہر میں کیسے ندیدے اور بدذوق نظر آرہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی اپنے معدے کی بھوک کے جن پر قابو نہیں؟
کچھ دانشوروں کے خیال میں یہ صدیوں کی بھوک ہے جو ہمارے آبا و اجداد کے ڈی این اے سے نسل در نسل سفر کرتی ہم تک آئی ہے اور اتنی طاقت ور ہے کہ اپنا غلبہ ہلکا نہیں ہونے دیتی ورنہ کوئی تو جین ہو جو تبدیل ہو کر پایابیِ تمنائے معدہ کو زیادہ دیر تک سیراب رکھ سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رمضان سے پہلے کے ایک دلخراش واقعے کا ذکر یہاں بے محل نہ ہو گا جسے یقیناً سب نے پڑھا، سنا اور دیکھا بھی ہے لیکن موضوع کی مناسبت سے دہرائے لیتے ہیں۔
ہوا یوں کہ ایک شادی ہال میں اچھے خاصے ’کھاتے پیتے‘ لوگوں کی تقریب کے دوران ایک بِن بلایا غریب گھس آیا جو پاپی پیٹ کی خاطر گھر میں پاپڑ بیلتا تھا۔ محاورتاً نہیں حقیقت میں۔ اور پھر گھوم پِھر کے وہ پاپڑ بیچتا بھی تھا۔ شادی ہال کے مہمان اسے شاید اپنے متوقع گاہک کی شکل میں نظر آئے اور وہ ہال میں داخل ہو گیا۔
کہا گیا ہے کہ وہاں موجود منتظمین یا باراتیوں سے مبیّنہ جھگڑے کے دوران دل کے دورے کے باعث جان کی بازی ہار گیا اور کی لاش کو شادی ہال کے ایک طرف ڈال دیا گیا۔ پیشتر اس کے کہ اس کے لواحقین روتے پیٹتے، سینہ کوبی کرتے پہنچتے اور کوئی خیراتی ادارہ میّت کی تجہیز و تکفین کی ذمہ داری لیتا یا پولیس آ کر کارروائی کا آغاز کرتی، اس آئٹم کا اعلان ہو گیا جس کا خالی معدوں کو انتظار تھا یعنی کھانا کھل گیا۔
خبر یہ نہیں کہ ایسا ہوا، خبر اس سے آگے کی ہے جہاں خوش لباس مہمانانِ گرامی اپنی اپنی پلیٹوں میں اشتہا انگیز انبار لگائے اپنی بھوک بھی مٹا رہے ہیں اور اسی جگہ ایک تازہ لاش کے منہ پر مکھیاں بھی بھنبھنا رہی ہیں۔
ہے کوئی مرہم بدست جواز، کوئی سکون آور دلیل یا کوئی ٹکور کرتا دلاسا جو توہینِ انسانیت کے اس زناٹے دار تازیانے کی سلگتی ہوئی تکلیف کو کم کر سکے؟
پیٹ کی بھوک ایک حقیقت ہے اور کھائے پیے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ دنیا کی تاریخ میں مختلف ادوار میں پڑنے والے قحطوں کے دوران ایسے ایسے گھناؤنے واقعات محفوظ ہیں کہ انسانیت شرما جائے۔ ایک ہوائی جہاز برف سے ڈھکی وادیوں میں کریش ہوا تو چند زندہ بچ جانے والوں نے جان بچانے کی خاطر مردہ مسافروں کے گوشت کو توانائی کی خاطر استعمال کیا۔ دنیا میں تباہی مچاتی جنگوں کے دوران پیٹ کی آگ غیر انسانی طریقوں سے بجھانے کی مثالیں بھی سامنے آتی رہی ہیں لیکن وہ خوفناک جنگوں میں جائز سمجھی جاتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حالتِ امن میں بھرے پیٹ کی بھوک کا سلسلہ کہیں کہیں اتنا بےحس کیسے ہو جاتا ہے کہ احساس کی بصارت سے مکمل چشم پوشی اختیار کر لیتا ہے۔ اگر کھلی رہ جاتی ہیں تو صرف بھوک کی آنکھیں جسے کھانے کی چیزوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
نظیر اکبر آبادی فرماتے ہیں کہ بھوکے پیٹ والے کو چاند، سورج کے دائرے بھی گول روٹی کی طرح نظر آتے ہیں۔ یعنی جیسے ساون کے اندھے کو ہرا ہی سوجھتا ہے، ایسے خالی پیٹ والے کو روٹی کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بھرے پیٹ والوں کا حال بہتر کیوں نہیں؟
اور تو اور ماہِ رمضان میں 30 دن روزہ رکھنے والی قوم کو عید پر اور اس کے بعد کھانے کی تقاریب میں چند منٹ کا انتظار بھی گوارا نہیں۔ اگر روزے کے بعد صبر کا سبق نہیں سیکھا تو کیا سیکھا؟
کیا ہم میں سے کوئی اس کڑوی حقیقت سے رو گردانی کر سکتا ہے کہ اپنے ہی کسی پیارے کو سپردِ خاک کرنے کے بعد گھر آ کر پہلا کام اپنے پیٹ کی بھوک مٹانا ہوتا ہے جو ہم سب کرتے ہیں۔ لیکن یہ تمام حقیقتیں ایک طرف اور موت کے پہلو میں جشنِ طعام ایک طرف!
نامور جرمن ادیب ہرمن ہیس کی شہرہ آفاق کتاب ’سدھارتھ‘ کے ہیرو کا مکالمہ یاد آ گیا جب وہ اپنی ذات کے ہنر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:
میں سوچ سکتا ہوں!
میں انتظار کر سکتا ہوں!!
میں بھوک برداشت کر سکتا ہوں!!!
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔