بےحد سراہی جانے والی ہالی وڈ فلم ’ٹاپ گن‘ کا سیکوئل جو اس ہفتے ایک ایسے وقت پر سینیما گھروں کی زینت بن رہا ہے جب ہو سکتا ہے کہ امریکی سفارت کاری 80 کی دہائی میں پھنسی ہوئی ہو اور روس سے جنگ میں مصروف ہے۔
جوہری جنگ کا خطرہ جغرافیائی سیاست پر زہریلے بادل کی طرح منڈلا رہا ہے اور امریکی اداکار ٹام کروز پیٹ ’میورک‘ مچل کے طور پر کاک پٹ میں واپس آئے ہیں۔
ان کی عمر اس وقت سے بمشکل ایک دن زیادہ دکھائی دے رہی ہے جب انہوں نے پہلی بار ماضی میں 1986 میں پائلٹس کی مدد کی۔
سیکوئل کی محض امریکی سرد اور جنوبی حب الوطنی دنیا بھر کی فلمی دنیا میں بہت جدید رجحان کو تقویت دیتا ہے یعنی سینیما بطور فوجی بھرتی کا آلہ کار۔
گذشتہ صدی کے دوران 800 سے زیادہ ہالی وڈ فلموں کو امریکی فوج کی طرف سے بہت زیادہ سپورٹ کیا گیا جیسا کہ 1927 کی بہترین فلم کا آسکر ایوارڈ جیتنے والی فلم ’ونگز‘ اور ناکامی سے دوچار ہونے والی ’دا گرین بریز‘ (1968) جس کی منظوری وائٹ ہاؤس نے جذباتی انداز میں دی۔
ویت نام کی جنگ پر یہ فلم اس وقت ریلیز کی گئی جب جنگ عروج پر تھی۔ تاہم یہ اس وقت تک نہیں ہوا جب تک ہم نے اصل ٹاپ گن میں گوز، جیسٹر اور آئس مین کے بلانے کے لیے کیے گئے اشاروں کو پہلی بار نہیں سنا۔
’تلافی‘کے طور پر بنائی اس فلم نے واقعی ہدف کو نشانہ بنایا۔ فلم کی چکرا دینے والی فضائی لڑائی، موافقت رکھنے والا ایم ٹی وی کا جاندار ساؤنڈ ٹریک اور شرٹ کے بغیر ساحل سمندر پر کھیلے جانے والے والی بال نے فلم کی ریلیز کے بعد امریکی بحریہ کی اپنی بھرتی پانچ سو فیصد بڑھانے میں مدد دی۔
ٹونی سکاٹ کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم کی مارکیٹنگ اتنی کامیاب تھی کہ جذبات سے فائدہ اٹھانے کے لیے سینیما گھروں میں بھرتی کرنے کے بوتھ لگائے گئے۔
ٹاپ گن: میوزک کے ذریعے تعلقات عامہ میں اسی طرح کی تیزی لانے کا امکان ممکن ہے کہ ان اعلیٰ امریکی فوجی عہدے داروں کے لیے بہتر وقت پر پیدا ہو چکا ہو جنہیں کئی دہائیوں سے بھرتی کے بعض سب سے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔
اپریل میں ریاستی سینیٹرز کو بتایا گیا کہ کس طرح امریکی فوج کو بٹالینز کی کم ہوتی تعداد کے ماحول میں’ٹیلنٹ کی جنگ‘ کا سامنا کرنا پڑا۔
فضائیہ حکام کے اس اعتراف کی بازگشت سنائی دی کہ کووِڈ کے آغاز کے بعد سے اس کے اہل امیدواروں کا اپنا پول نصف تک کم ہو گیا ہے۔
بحریہ کے لیے بھی صورت حال اچھی نہیں جس نے فروری میں اعلان کیا کہ اسے سمندر میں پانچ سے چھ ہزار سیلرز کی کمی کا سامنا ہے۔
ان اعلانات سے ایک ماہ قبل چینی بحری جہازوں نے بحیرہ جنوبی چین میں امریکی جنگی جہاز کا سراغ لگایا اور اسے غیر قانونی پانیوں میں مبینہ طور پر بھٹک جانے کے بعد ’سنگین نتائج‘ سے خبردار کیا۔
اس کے بعد حیرت کی کوئی بات نہیں رہی کہ انکل سام نے ایک بار پھر پیراماؤنٹ پکچرز کو’میورک‘ بنانے کے لیے کھلے بازوؤں کے ساتھ خوش آمدید کہا۔
ہدایت کار جوزف کوسنسکی اور ان کے عملے کو انتہائی حساس بحری تنصیبات تک رسائی کے پاس جاری کیے گئے۔ ان تنصیابات میں نیمٹز کلاس کا جوہری طاقت سے چلنے والا ایک طیارہ بردار جہاز بھی شامل ہے۔
عالمی معیار کے تکنیکی ماہرین نے فلم کے اداکاروں کو(ہنگامی حالت میں) سیٹ سے نکلنے تک کی اعلیٰ درجے کی فائٹر پائلٹ تربیت فراہم دی۔
اداکار نے آسمان پر پرواز شروع کر دی جب کہ پروڈکشن ٹیموں نے ایف/ اے۔18 سپر ہورنیٹ طیاروں میں کیمرے لگائے۔
بدلے میں جیسا کہ اوریجنل فلم میں ہے، بحریہ کو سکرپٹ کی منظوری دی گئی۔ اس صورت حال سے یہ بھی وضاحت ہو سکتی ہے کہ کیوں ٹاپ گن: میورک کبھی اپنے ولنز کے بارے میں تفصیل میں نہیں جاتی - اس کی بجائے ناظرین کو صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ’دشمن‘ یورینیم کی افزودگی کے جنون میں مبتلا ایک بدمعاش ریاست ہے۔ فرض کریں کہ اس ریاست کا قافیہ ’ڈیرن‘سے ملتا ہے۔
ٹاپ گن کے معاملے یہ بات نئی ہے کہ میوزک کی پروڈکشن ٹیم کو ہتھیار بنانے والی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن اور اس کے خفیہ سکنک ورکس ڈویژن کے ساتھ براہ راست کام کرنے کا موقع ملا۔
تاریں اس وقت بج اٹھیں جب فلم کے ابتدائی ٹریلرز میں سے ایک میں ڈارک سٹارنامی ہائپرسونک طیارہ دکھایا گیا جو سرد جنگ کے دور کے ایس آر71- بلیک برڈ کی جدید شکل ہے۔ یہ طیارہ کوئی حقیقی پروٹو ٹائپ نہیں تھا لیکن چین کو یہ معلوم نہیں تھا۔
ٹاپ گن کے پروڈیوسر جیری برک ہائمر کے مطابق چینیوں نے فلم بندی کے دوران پروں والے طیارے کی تصویر لینے کے لیے جاسوس خلائی سیٹلائٹ کو حرکت دی یہ مانتے ہوئے کہ یہ اصلی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے سینڈ باکس نیوز کو بتایا کہ ’انہوں نے سوچا کہ یہ اصلی ہے۔ یہ کتنا حقیقی لگتا ہے۔‘
ایک ایسی دنیا میں معلومات کی (اور حتیٰ کہ غلط معلومات کی بھی) سب سے زیادہ اہمیت ہے جہاں ٹیکنالوجی کے میدان میں مسابقت کا رجحان بڑھ رہا ہےاور جہاں روس کا سرکاری ٹی وی ریڈیو ایکٹیو سونامی کے ذریعے برطانیہ میں تباہی کے ایسے مصنوعی مناظر نشر کر رہا ہے جیسے یہ حقیقت میں ہو رہے ہوں۔
جتنے زیادہ ناظرین ہوں گے اتنا ہی بڑا پیغام ہو گا۔ ایسے میں سینیما کے گلوبل باکس آفس کو اس فریب اور شومین شپ کے لیے توسیع دی جا سکتی ہے۔
محکمہ دفاع کی جانب سے ٹاپ گن کی حمایت حقیقت میں اس تبدیلی کی علامت ہے جس کا تقابل چین کے سینیما سے کیا جائے گا جس کو وہاں کی حکومت طویل عرصے سے اپنا ایجنڈا پھیلانے لیے استعمال کر رہی ہے۔
اسی طرح کوریا کی وار فلم ’دا بیٹل ایٹ لیک چینگجن‘ 2021 میں ریلیز ہوئی تھی جس کو بیجنگ کے پروپیگنڈا ڈپارٹمنٹ کی جانب سے تقریباً 16 کروڑ پاؤنڈز کی مکمل فنڈنگ کی گئی تھی۔
یہ چین کی تاریخ کی کامیاب ترین فلم بن گئی جس نے باکس آفس پر 73 کروڑ پاؤنڈز منافع کمایا۔
اسی فلم کا ایک سیکوئل ’واٹر گیٹ برج‘ بنایا گیا جس رواں سال کے مقامی باکس آفس کی کامیاب ترین فلم رہی۔
لیکن اس فلم کو ایک اور اینٹی امریکہ کورین وار فلم ’سنائپر‘ سے سخت مقابلے کا سامنا تھا جو ایک حقیقی دنیا میں چین کے لیجنڈری سنائپر شوٹر ژینگ تاؤفینگ کی زندگی پر مبنی تھی جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے 40 دنوں سے بھی کم وقت میں 214 امریکی فوجیوں کو ہلاک کیا تھا۔ اس فلم کی ٹیگ لائن ’ان سب کو جہنم میں بھیج دو‘ تھی۔
اس فلم کی تمام ٹکٹوں کی فروخت سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ واضح ہے کہ اس طرح کی ترمیم پسندانہ انٹرٹینمنٹ کی کس قدر طلب ہے۔
روس میں بھی بڑی سکرین کو قوم پرستی پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 2019 کی فلم T-34 کو ہی لے لیجیے جو نازی کیمپوں سے سویت T-34 ٹینک کی مدد سے فرار ہونے والے روسی جنگی قیدیوں کے ایک گروپ کی کہانی کو بیان کرتی ہے۔
یہ روس کی تاریخ کی تیسری سب سے منافع کمانے والی فلم ہے جس کا ہر سین ریڈ سکوائر میں مارچ کرنے والے میزائلوں کی طرح کا منظر پیش کرتا ہے۔
یہ فلم کریملن کے اس پروگرام کا حصہ ہے جس کے ذریعے روسی نوجوانوں میں قومی وقار پیدا کرنا ہے۔
جیسا کہ ہم نے یوکرین پر روسی حملے کے بعد دیکھا ہے کہ کس طرح صدر ولادی میر پوتن نازی جرمنی پر سویت کی فتح کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کے لیے زور دیتے رہے ہیں۔
باقی دنیا کی طرح اس صدی کی کامیاب ترین ہالی وڈ فلمیں بھی پینٹاگون کی مدد سے پروڈیوس کی گئیں جن میں ایواٹار، ٹرانسفارمر فرنچائز کی فلمیں اور مارویل سیریز کی فلمز شامل ہیں۔
2008 کی کامیاب فلم آئرن مین میں حقیقی زندگی کے ’کیپٹن امریکہ‘ یعنی کیپٹن کرسچن ہوج فلم کے سیٹ پر ملٹری ہینڈلر تھے جنہوں نے اپنے سپیرئیرز کو بتایا کہ کیسے ایئر فورس کو راک سٹار کی طرح پیش کرنا ہے۔
آئرن مین شاید مزاحیہ کتاب سے ماخوذ ہو لیکن اس میں ہمیں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ کیسے امریکی کانٹریکٹر کو ایک سپر سوٹ میں افغانستان کا سفر کرنے اور وہاں دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا جس کے لیے ایسا کرنا ناک سے مکھی اڑانے جیسا تھا۔
بہرحال یہ پھر بھی ایم سی یو اور محکمہ دفاع کے درمیان شراکت داری کو ظاہر نہیں کرتا ہے جو صدی کے بہترین ریڈار سے بچ نکلنے جیسا ہے۔
یہ یقیناً 2019 کے کیپٹن مارول تک تھا۔ بری لارسن کو ایک اعلیٰ فضائیہ کے پائلٹ کے طور پر اداکاری کرتے ہوئے دوسری دنیا کی سپر پاورز دی گئیں۔
اس کی فوجی بھرتی والی فلم کی طرح چلانے پر کئی حلقوں کی جانب سے مذمت بھی کی گئی۔ اور ایسا کیا جانا کئی معاملوں میں بجا بھی تھا۔
فلم بے شرمی کے ساتھ ’ٹیم امریکہ‘ بن گئی یعنی امریکی فضائیہ نے سکرپٹ کی تحقیق، مقامات اور تکنیکی مشوروں کے ساتھ اس میں مدد فراہم کی۔ یہ ہی نہیں بلکہ سینما گھروں میں فلم سے پہلے خاتون پائلٹس کی بھرتی کے اشتہارات تک چلائے گئے۔
فلم کے ورلڈ پریمیئر کے موقعے پر امریکی فضائیہ میں خدمات انجام دینے والی خواتین پائلٹوں کو ریڈ کارپٹ کی زینت بنایا گیا اور ایک ایلیٹ سکواڈرن نے فلائی اوور کا مظاہرہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے کہ یہ فلم ایک ایسے وقت ریلیز ہو رہی ہے جب فوج اپنے ٹیلنٹ پول کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن فلم کی فیمنسٹ ٹون کے باوجود اس نے ڈزنی کے لیے مسائل کھڑے کر دیے۔
ہمارے اپنے گھروں کے قریب برطانیہ کے سینما گھروں کو بھی حالیہ برسوں میں فوجی بھرتی کے لیے ایک پرکشش ذریعے کے طور پر دیکھا گیا ہے جہاں ملٹی پلیکس میں سٹکی فلور اور مہنگے ’پک این مکس خریدنے کی طرح فوجی اشتہارات بھی دیکھنے پڑیں گے۔
آپ کو سینیما میں اب اس قسم کے وائس اوور سننے کو ملتی ہیں: ’میں کیون ہوں، میں ایک صوبائی قصبے میں پیدا ہوا تھا لیکن مجھے بحیرہ بالٹک میں اس بڑے طیارہ بردار بحری جہاز پر آنا تھا۔‘
چاہے وہ رائل نیوی سے تعلق رکھتے ہوں یا میرین کمانڈوز سے، ہر ایک کو سینیما کے لحاظ سے تیار کیا گیا ہے۔
2018میں برطانوی فوج نے ’دِس از بیلانگنگ‘ مہم کے ذریعے 16 سے 24 سال کی عمر کے لوگوں کو متاثر کرنے والے مخصوص اشتہارات کو خاص طور پر 4DX ٹیکنالوجی سے لیس سینما گھروں کے اندر بلاک بسٹر فلموں کے لیے رول آؤٹ کیا۔
اشتہاری کمپنی ’ڈیجیٹل سینیما میڈیا‘ نے کہا کہ اس تعاون سے فوج کو ’ایک بہترین تخلیقی پلیٹ فارم فراہم ہوا جس نے فوج کو خود کو ایک منفرد، پرکشش اور بے ترتیبی سے پاک ماحول والی فورس بتانے کے لیے آگاہی پھیلانے، اپنا پیغام پہنچانے اور توجہ حاصل کرنے کے قابل بنایا۔‘
کون جانتا ہے کہ شاید جب آپ ماورک کی فضا میں بم چلاتے ہوئے دیکھنے کے لیے سینیما جائیں گے تو آپ خود کو لڑاکا جیٹ میں سوار ہونے کے لیے بے چین محسوس کریں یا ہوسکتا ہے کہ آپ CGI-lite بلاک بسٹر کے لیے پرانی یادوں کو محسوس کریں گے جو ایک حقیقی تھرو بیک کی طرح محسوس ہوتا ہے۔
کسی بھی طرح جب ایکشن فلموں اور دفاعی معاہدوں کو حاصل کرنے کی بھوک بڑھ رہی ہے تو آپ توقع کر سکتے ہیں کہ سلور سکرین مستقبل میں فوجی حکمت عملی کے لیے اہم کردار ادا کرے گی۔ نیول چیفس ابھی تک اس محبت بھرے احساس سے محروم نہیں ہوئے۔
© The Independent