خلائی دوربین جیمز ویب ٹیلی سکوپ دو گرم موسم والے ’سپر ارتھ‘ سیاروں کا مشاہدہ کرے گی، جن میں سے ایک پر کبھی لاوا کے سمندر موجود تھے۔
ناسا نے اعلان کیا کہ اس موسم گرما میں شائع ہونے والی تحقیق میں دو پتھریلے سیاروں پر توجہ مرکوز کی جائے گی: لاوے سے ڈھکا ہوا 55 کینکری ای اور ہوا کے بغیر ایل ایچ ایس 3844 بی۔
خلا میں اپنے سورج سے 15 لاکھ میل (24 لاکھ کلومیٹر) دور مدار میں گھومتے ہوئے 55 کینکری ای پر صرف 18 گھنٹے کا سال ہوتا ہے۔ اس سیارے کا ایک رخ ہر وقت اپنے سورج کی طرف ہوتا ہے، جسے ’ٹائیڈل لاک‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سیارے کا درجہ حرارت نسبتاً یکساں ہونا چاہیے۔
تاہم 55 کینکری ای کے معاملے میں لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ اس دنیا کا وہ حصہ سب سے زیادہ گرم ہے جو سورج کا سامنے کرنے والے حصے کی مخالف سمت میں ہے۔
اس کی ایک وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ اس عجیب دنیا میں ایک متحرک ماحول ہے جو حرارت کو منتقل کر دیتا ہے۔
جنوبی کیلیفورنیا میں ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری سے وابستہ رینیو ہو نے وضاحت کی: ’آکسیجن یا نائٹروجن کی کثرت کے ساتھ 55 کینکری ای کی فضا موٹی ہوسکتی ہے۔ اگر اس میں کوئی فضا ہے تو [ویب] کے پاس اس حد کی حساسیت اور ویولینتھ موجود ہے جو یہ معلوم کر سکے کہ فضا کس چیز کی بنی ہے۔‘
ایک اور تجویز یہ ہے کہ 55 کینکری ای ٹائیڈلی لاک (جیسے چاند زمین کے ساتھ لاک ہے اور اس کی ایک ہی سائڈ ہمیشہ زمین کے سامنے رہتی ہے) نہیں۔ اس کی بجائے، ہوسکتا ہے یہ عطارد کی طرح کام کرتا ہو جو سورج کے گرد ہر دو چکر کے دوران اپنے محور پر تین بار گھومتا ہے اور اس طرح درجہ حرات کو منتقل کرتا ہے۔
سٹاک ہوم یونیورسٹی کی ایک محقق الیکسس برانڈیکر نے وضاحت کی: ’اس سے یہ واضح ہو سکتا ہے کہ سیارے کا گرم ترین حصہ دوسری جانب کیوں ہے۔ زمین کی طرح سطح کو گرم ہونے میں بھی وقت لگتا ہے۔ دن کا گرم ترین وقت دوپہر کے بعد کا ہوگا، بالکل دوپہر کے وقت نہیں۔‘
سائنس دانوں نے اس امید کے ساتھ 55 کینکری ای پر چار مختلف مداروں پر حرارت کی پیمائش کرنے کا منصوبہ بنایا ہے کہ دن کے وقت یہ سطح گرم ہو جائے گی، پگھل جائے گی اور ممکنہ طور پر بخارات میں تبدیل ہو جائے گی، جس سے ایک بہت ہی پتلی فضا بنے گی جس کا ویب ٹیلی سکوپ کو پتہ چل سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شام کو بخارات ٹھنڈے اور گاڑھے ہو کر لاوے کے قطرے بنتے ہوں گے جو واپس سطح پر برستے اور رات میں دوبارہ ٹھوس ہو جاتے ہوں گے۔
دوسرے سیارے ایل ایچ ایس 3844 بی پر اپنے نسبتاً چھوٹے سائز کی وجہ سے ایسا درجہ حرارت نہیں ہے - لیکن اس سے سائنس دانوں کو دوسری دنیا پر ٹھوس چٹان کا تجزیہ کرنے کا موقع ضرور ملے گا کیونکہ سیارے میں موٹی فضا ہونے کا امکان نہیں ہے۔
میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ایسٹرانومی سے وابستہ لورا کریڈبرگ نے وضاحت کی: ’پتہ چلا ہے کہ مختلف اقسام کی چٹانوں میں مختلف سپیکٹرا ہوتے ہیں۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ گرینائٹ کا رنگ بیسالٹ سے ہلکا ہے۔ چٹانوں سے جو انفراریڈ شعائیں نکلتی ہیں وہ بھی اسی طرح مختلف ہوتی ہیں۔‘
یہ ٹیم ایل ایچ ایس 3844 بی کے دن میں تھرمل اخراج سپیکٹرم کو ریکارڈ کرے گی اور پھر اس کی بناوٹ کا تعین کرنے کے لیے اس کا موازنہ بیسالٹ اور گرینائٹ جیسی معلوم چٹانوں کے سپیکٹرا سے کرے گی۔
ان مشاہدوں سے سائنس دانوں کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ ابتدا میں یہ زمین کیسی تھی اور دوسری دنیا کی تلاش میں نئی معلومات ملنے کا بھی امکان ہے۔
اس وقت ہماری کہکشاں میں پانچ ہزار سے زائد ایکسو پلانیٹس (ہمارے نظام شمسی سے باہر سیارے) دریافت ہو چکے ہیں اور سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس میں مجموعی طور پر سینکڑوں ارب ایکسوپلانیٹس ہو سکتے ہیں۔ ان اربوں میں سے کچھ پر زندگی موجود ہو سکتی ہے۔
© The Independent