حکومتی اراکین کی لفظ ’سلیکٹڈ‘ کے استعمال سے متعلق انتہائی درجے کی حساسیت اور ناراضگی سمجھ سے بالاتر ہے۔ لغت میں الیکٹڈ اور سلیکٹڈ کے تراجم میں بس بال برابر فرق ہے۔ الیکٹڈ منتخب اور سلیکٹڈ منتخب شدہ۔ انتخاب کا عنصر دونوں مطالب میں حاوی ہے۔ صرف ’شدہ‘ کے اوپر اتنا شور مچانا اور اس کو ایوان کی عزت کا مسئلہ بنانا مناسب نہیں ہے۔
اور پھر وزیر اعظم عمران خان سلیکٹڈ کہلائے جانے پر بلاول بھٹو کی نئی اسمبلی میں تقریر پر خوش ہو کر ڈیسک بجاتے دیکھے جا چکے ہیں۔ نہ اس وقت اس لفظ پر اعتراض اٹھایا گیا، نہ اس لفظ کی غیر پارلیمانی صفت کو بنیاد بنا کر اس کو ایوان سے رخصت کرنے پر کوئی رولنگ دی گئی۔
ویسے بھی کرہ ارض پر کوئی انسانی سرگرمی ایسی نہیں جس میں ’منتخب شدگی‘ موجود نہ ہو۔ ہمارا کھانا، پینا، اٹھنا، بیٹھنا، پڑھنا لکھنا، عیاشی و بدمعاشی، نیکی و مکاری سب کچھ سلیکشن کے ذریعے طے پاتا ہے۔ کسی بھی دوسرے انسان کی طرح وزیر اعظم عمران خان کی زندگی سلیکشن کے عمل سے بھری ہوئی ہے۔ کس کالج اور برطانوی یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہے۔ کس شعبے میں سند حاصل کرنی ہے۔ کتنی محنت کر کے تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونا ہے۔ یہ وہ فیصلہ سازی ہے جو سلیکشن کے بغیر ممکن نہیں۔
ان کے کرکٹ کیریئر میں سلیکشن نے ہر موڑ پر ان کا ساتھ دیا۔ ٹیم میں سلیکٹ ہوئے۔ تیز رفتار بولنگ کے شعبے میں محنت کرنا سلیکٹ کیا۔ پیچیدہ لمحات میں یہ سلیکشن بھی اہم ہوا کرتی تھی کہ اضافی مدد کے لیے دعائے خیر کے علاوہ بوتل کا ڈھکن، لوہے کا ٹکڑا یا ریگ مال کے استعمال کو ترجیح دی جائے تاکہ مخالف ٹیم جلدی آوٹ ہو سکے۔ وہ کاؤنٹیز میں کھیلنے کے لیے سلیکٹ ہوئے۔ اپنی ٹیم کو خود سلیکٹ کیا اور پھر 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد ٹیم سے زیادہ کامیابی کا سہرا اپنے سر کرنے والے الفاظ ان کے اپنے منتخب شدہ تھے۔ شوکت خانم کے لیے نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر زمین حاصل کرنا، اپنی والدہ مرحومہ کی بیماری کی وجہ سے کینسر کے خلاف جہدوجہد کو اپنا شعار بنانا وہ فیصلے تھے جن پر ذاتی سلیکشن کی چھاپ گہری ہے۔
سیاسی میدان میں جنرل مشرف سے بغل گیری، جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف کی دانش مندی اور مشہوری کی تعریفیں، اپنے ذاتی اور معاشی معاملات کو امیر ترین دوستوں کی مدد سے طے کرنے سے متعلق وزیر اعظم عمران خان نے تمام فیصلے سلیکشن کی بنیاد پر کیے ہیں۔ ان کے بعض اہم خاندانی فیصلے بھی اسی سلیکشن پر ہوئے اور مغربیت سے براستہ مشرقیت ان کا روحانیات تک کا سفر بھی اس سلیکشن کے بغیر ممکن نہیں تھا جو انہوں نے اپنی طرز زندگی میں ظاہری طور لانے کی کوشش کی۔
سیاسی طور پر ان کے بیانات، ٹوئٹس اور تقاریر میں ان کے خیالات اور گڑ بڑا دینے والے تاریخی حوالے سب وہ سلیکشنز ہیں جن کے ذریعے وہ اس وقت اپنے عہدے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی تمام کابینہ اور مشیر سلیکٹڈ لوگوں پر مشتمل ہیں۔ یعنی اگر وہ اسد عمر کی جگہ حفیظ شیخ کو سلیکٹ کر کے معیشت سنبھالنے کا ہدف نہ دیتے تو آج اسد عمر پرانی عزت و احترام کے ساتھ میڈیا کی توجہ کا مرکز ہوتے اور کونے کھدروں سے کبھی کبھار سر نکال کر بیانات دیتے ہوئے نہ پائے جاتے۔
کابینہ کا ہر فرد سلیکشن کی وجہ سے وزیر اور مشیر ہے۔ گاڑی پر جھنڈا اور ہاتھ میں طاقت، وسائل اور مراعات کا ڈنڈہ الیکشن کی نہیں بلکہ سلیکشن کی وجہ سے ہے۔ الیکٹ تو سینکڑوں اراکین ہوئے لیکن پیری مریدی کے صدقے ہونے والی سلیکشن کے بعد پنجاب کے وزیر اعلی بننے کا جھومر عثمان بزدار کے ماتھے پر ہی ٹکا۔ اسٹیٹ بینک کا گورنر دنیا کے دوسرے کونے سے اٹھا کر سلیکشن کے ذریعے معیشت کی چوکیداری پر بٹھا دیا گیا۔ کل تک جو اپنے امیر کلائنٹس کے ٹیکسوں کو کم کروانے کے لیے ایف بی آر کے ہر فلور پر بھاگتا دوڑتا پھرتا تھا اب اس ادارے کا چیئرمین بن کر لوگوں کے گھروں پر ٹیکسوں کے حصول کے لیے چھاپے مارنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ یہ بھی سلیکشن کا کرشمہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلیکٹڈ لفظ کے خلاف نبرد آزما مجاہدہ فردوس عاشق اعوان الیکشن ہارنے کے باوجود اس اہم عہدے پر فائزہیں۔ زلفی بخاری اور ان جیسے کئی دوسرے رسمی اور غیر رسمی مشیر تاج برطانیہ کے نائب ہونے کے باجود دن رات پاکستان کی خدمت میں بذریعہ سلیکشن مصروف ہیں۔ یقینا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر سلیکشن کے عمل کو اس نظام میں سے منہا کر دیا جائے تو اس کی ایک اینٹ بھی نہیں بچے گی۔ نہ وزیر اعظم ہاؤس چل سکے گا۔ نہ ہی وہ نیک افسر شاہی کام کر پائے گی جس کو ہزاروں محنتی بیوروکریٹس کے ہجوم میں وزیر اعظم نے سلیکٹ کر کے اہم عہدوں پر فائز کیا ہے۔
سلیکشن کے بغیر یہ کیسے ممکن تھا کہ جہانگیر خان ترین سپریم کورٹ سے تاحیات نا اہل ہونے کے باوجود پنجاب اور وفاق میں عملا ڈپٹی پرائم منسٹر کے طور پر کام کر رہے ہوتے؟ جہانگیر ترین کی مثال سلیکشن کے حق میں حکومت کی جانب سے سب سے بڑا اعتماد کا ووٹ ہے۔ وہ اس مفروضے کو غلط ثابت کرتے ہیں کہ الیکشن جنت کی ہوا ہے اور سلیکشن دوزخ کی چڑیل۔
اس کے علاوہ آنے والے دنوں میں وزیر اعظم کے اہم ترین فیصلے سلیکشن کی بنیاد پر ہوں گے الیکشن کی وجہ سے نہیں۔ مثلا انہوں نے یا تو موجودہ آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کا فیصلہ کرنا ہے اور یا اچھی روایت کی اطاعت کرتے ہوئے نئے فوجی سربراہ کو منتخب کرنا ہے۔ ایکسٹینشن کی صورت میں موجودہ چیف جنرل قمر جاوید باجوہ عمران خان کے منتخب شدہ ایکسٹینشن والے سربراہ ہوں گے۔ آج سے تین سال پہلے وہ نواز شریف کے وہ منتخب شدہ فوجی سربراہ تھے، جس نے اپنے سے پہلے نواز شریف کے ہاتھوں ہی ایک اور منتخب شدہ جنرل راحیل شریف کی جگہ لی۔ دوسری صورت میں بھی سلیکشن عمران خان کو ہی کرنی ہے۔ باوجود اس کے کہ ممکنہ نئے آرمی سربراہ کے لیے چھان پھٹک وزیر اعظم کے نا اہل مگر سلیکٹڈ مشیر کر رہے ہیں، بہرحال نیا فوجی سربراہ سلیکشن کے ذریعے ہی سامنے آئے گا۔ اور جیسا کہ مثبت رپورٹنگ کے ذریعے ہم یہ جان چکے ہیں کہ ہر سلیکٹڈ فوجی سربراہ ملک کی نظریاتی اور حقیقی سرحدوں کے لیے ناگزیر ہے۔ لہذا دونوں آپشنز میں سے وزیر اعظم کی منتخب شدہ آپشن یقینا ہماری قومی خوشحالی اور اقتصادی ترقی میں بہترین کردار ادا کرے گی۔
مزید برآں ہماری تاریخ کے پیش نظر سلیکٹڈ میں الیکٹڈ ہونے کی نسبت زیادہ راحت اور عافیت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو الیکٹڈ ہونے پر ناز تھا اور وہ اسی زعم میں پھانسی پر چڑھا دیے گئے۔ ان کی قبر کے برابر بے نظیر بھٹو ابدی نیند سو رہی ہیں۔ جو دنیا اسلام اور پاکستان کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم تھیں۔ نواز شریف کا تین مرتبہ منتخب ہونے کا گھمنڈ اب جیل میں ان کا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔ اس کے بر عکس شوکت عزیز،چودھری شجاعت، ظفراللہ خان جمالی جیسے خوش نصیب بھی ہیں جو مکمل یا نیم منتخب شدہ ہونے کے توسط خوش و خرم زندگیاں گزار رہے ہیں۔ نہ کسی کا ڈر ہے نہ خوف۔ نہ پکڑ ہے نہ جکڑ۔ چین ہی چین ہے۔
لہذا وزیر اعظم عمران خان کو یہ سمجھنا چاہئیے کہ سلیکٹڈ ہونا سیاسی طویل العمری کی ضمانت ہے۔ جب بھی کسی نے سلیکٹڈ سے اپنی شناخت بدل کر الیکٹڈ ہونے کو ترجیح دی اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ ان کو اپنے پارلیمانی چیتوں کو ہدایت دینی چاہئیے کہ سلیکٹڈ کی اصطلاح کی تکہ بوٹی کرنے کے بجائے اس کو عزت بخشیں اور حزب اختلاف کی طرف سے سلیکٹڈ ہونے کے طعنے کو وہ تمغہ سیاسی بصیرت گردانیں جو انتخابی عمل سے گزرنے والے ہر شخص کو نہیں ملتا۔ صرف اسی کا مقدر بنتا ہے جو سلیکشن کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ سلیکٹڈ کو غیر پارلیمانی نہیں بلکہ انتہائی پارلیمانی لفظ کا درجہ ملنا چاہئیے۔ نیا پاکستان اس کے بغیر نا مکمل ہے۔