’میں کہیں نہیں جا رہا۔ میں یہیں رہوں گا اور یہیں مروں گا۔‘
یہ وہ الفاظ ہیں جو شُبھ دیپ سنگھ سدھو ہر ریلی اور کارنر میٹنگ میں ادا کیا کرتے تھے، جب وہ رواں برس فروری میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے امیدوار تھے۔
شُبھ دیپ سنگھ سدھو کو، جو سدھو موسے والا کے نام سے مشہور تھے، گذشتہ روز مانسا کے علاقے میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔
بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے پنجاب پولیس کے سربراہ وی کے بھاورا کے حوالے سے بتایا کہ حملہ آوروں نے 30 گولیاں چلائیں اور سدھو موسے والا کی گاڑی میں 14 گولیوں کے نشان ملے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ فائرنگ اسلحے کی تین مختلف قسموں سے ہوئی اور اس قتل کے پیچھے مبینہ طور پر موسے والا کے مینیجر اور کینیڈا میں ایک منظم گروہ کے درمیان اختلافات ہیں۔
سدھو موسے والا نہ صرف بھارتی پنجاب کے بڑے پاپ سٹارز میں سے ایک تھے بلکہ وہ ایک متنازع شخصیت بھی تھے، جن کا کئی بار قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تنازع بھی رہا۔
IM ALONE AND IM ENOUGH #MOOSETAPE pic.twitter.com/ppVe2LFP3S
— Sidhu Moose Wala (@iSidhuMooseWala) May 14, 2021
ناقدین کو اکثر گلہ رہا ہے کہ وہ اپنے گانوں اور سوشل میڈیا پوسٹس سے اسلحے کے کلچر کو فروغ دیتے ہیں، جو پنجاب میں ویسے ہی تشویش کی بات ہے۔
مئی 2020 میں ان کے خلاف کرونا لاک ڈاؤن کے دوران ایک گن رینج میں اے کے 47 سے فائر کرنے کا کیس درج کیا گیا تھا۔ گانے ’سنجو‘ میں مبینہ طور پر تشدد اور گن کلچر کو فروغ دینے کے الزام میں بھی ان پر ایک کیس درج ہے۔
امریکی میگزین رولنگ سٹون کے مطابق موسے والا نے اپنا پہلا گانا 2017 میں ریلیز کیا اور جلد ہی وہ بھارت اور دنیا بھر میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ چار سال کے عرصے میں یوٹیوب پر ان کی ویڈیوز کے چار ارب سے زائد ویوز ہوئے۔
ان کے گانوں میں پنجابی بیٹس پر اسلحے، گینگز اور غربت سے امیری کے سفر کی داستانیں بھری پڑی تھیں۔
انہیں دا گارڈین نے 2020 میں بہترین نئے فن کار کے طور پر منتخب کیا اور اسی سال وہ مشہور کینیڈین ریپ گلوکار ڈریک کی نظروں میں بھی آگئے، جنہوں نے انسٹاگرام پر موسے والا کو فالو کیا اور ان کے قتل کے بعد اپنی انسٹاگرام سٹوری میں ان کا ذکر بھی کیا۔
ان کے گانے کئی بار کینیڈا اور برطانوی چارٹس پر ٹاپ پر رہے۔ وہ دنیا بھر میں سکھ تارکین وطن افراد کے درمیان مشہور رہے۔ وہ اکثر برطانوی فنکاروں جیسے سٹیفلون ڈون، مسٹ اور سٹیل بینگلز کے ساتھ کام کرتے تھے۔
انہوں نے فروری میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات لڑے، جس میں اگرچہ انہوں نے 36 ہزار ووٹ حاصل کیے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔
سدھو موسے والا نے دسمبر 2021 میں کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سیاست میں اس لیے آئے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ وہ نظام کو اندر سے بدل سکتے ہیں۔
رولنگ سٹون کے مطابق پارٹی کا حصہ بننے کے روز ان کا کہنا تھا: ’میں سیاست میں رتبے یا تعریف کے لیے نہیں آ رہا۔ میں نظام کا حصہ بننا چاہتا ہوں تاکہ اسے بدل سکوں۔ میں لوگوں کی آواز اٹھانے کے لیے کانگریس کا حصہ بن رہا ہوں۔‘
انڈین ایکسپریس کے مطابق 27 سالہ موسے والا سیلف میڈ سٹار تھے، مگر ان کا دل ان کے گاؤں موسا میں ہی تھا۔
انتخابی مہم کے دوران گاؤں گاؤں جا کر وہ یہی کہتے رہے: ’اسی لیے میں نے اپنے نہیں بلکہ اپنے گاؤں کے نام سے خود کو پہچاننے کو ترجیح دی۔‘
FANITO pic.twitter.com/BlUGbqMsOR
— Sidhu Moose Wala (@iSidhuMooseWala) March 30, 2022
انتخابی مہم میں انہوں نے ماحولیات کو اپنا سلوگن بنایا۔ ایک کارنر میٹنگ میں انہوں نے کہا: ’جب میں 23 سال کا تھا تو میں نے موسیقی کا انتخاب کیا تاکہ اپنے والدین کی زندگی بدل سکوں۔ اب 27 سال کی عمر میں میرے پاس شہرت اور پیسہ ہے، لیکن اپنے والدین کو دینے کے لیے میں ہوا نہیں خرید سکتا۔ امیر ہو یا غریب ہم ایک ہی ہوا میں سانس لیتے ہیں۔‘
وہ کینسر کے حوالے سے آگاہی کے لیے بھی کام کرتے تھے اور اپنے گاؤں میں سکرینگ کیمپ لگواتے تھے۔
ستم ظرفی یہ کہ ان کے آخری گانے کا نام ’دا لاسٹ رائیڈ‘ تھا جو 15 مئی کو ریلیز ہوا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ’دا لاسٹ رائیڈ‘ امریکی ریپ موسیقار ٹوپاک شکور کی یاد میں تھا، جو 1996 میں اپنی گاڑی میں قتل کر دیے گئے تھے۔
آخر میں وہ اپنے گاؤں سے کچھ کلومیٹر دور ہی موت کی نیند سلا دیے گئے۔
گلوکار اشوک مستی نے سدھو موسے والا کی موت پر اپنے صدمے کا اظہار کیا، اور ہندوستان ٹائمز کو بتایا، ’میرے خیال میں ریاستی حکومت اور پولیس کہیں ناکام ہوئی ہے، خاص طور پر اس حقیقت پر غور کرتے ہوئے کہ انہوں نے (ان کی موت) سے ایک دن پہلے اس کا حفاظتی حصار ہٹا دیا تھا۔ یہ ایک غلطی تھی۔ اور مجھے لگتا ہے کہ موسے والا کو اس کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔‘
پنجاب کے وزیر اعلی بھگونت مان نے پیر کو کہا کہ ریاستی حکومت پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کرے گی کہ سدھو موسے والا کے قتل کیس کی جانچ موجودہ جج سے کروائی جائے۔ یہ پنجابی گلوکار کے والد بلکور سنگھ موسے والا کے ایک خط کے بعد سامنے آیا ہے جس میں تحقیقات کی درخواست کی گئی تھی۔