حکومت کے لیے فوری خطرہ ٹل گیا؟

ایک ماہ قبل شہباز شریف کی حکومت چند دنوں کی مہمان نظر آتی تھی، مگر اب بظاہر اس کے قدم جمے نظر آ رہے ہیں۔

شہباز شریف اپنے اتحادی پارٹنر متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما خالد مقبول صدیقی کےساتھ 13 اپریل 2022 کو (اے ایف پی)

جب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نو اپریل کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے معزول کیا گیا تو عمومی طور پر خیال یہی تھا وہ عوامی سطح پر پاکستان کی مڈل کلاس، اہم اداروں میں اور اپنے پارٹی کے رینک اور فائل

میں موجود اپنی حمایت کے بل بوتے پر نئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔

وقت نے بتایا کہ یہ خیال درست ثابت ہوا۔ انہوں نے حکومت کے خلاف جو حکمتِ عملی بنائی ہے اس میں ’امریکہ کی سازش سے لائی ہوئی امپورٹڈ‘ اور ’کرپٹ‘حکومت کے ساتھ ساتھ اداروں کے حوالے سے ان کے خلاف ایک تواتر کے ساتھ احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

وہ اور ان کے حامی کبھی سازش کے سہولت کار کی صورت میں، کبھی ’میر جعفر و میر صادق‘ کے نام سے اور پھر کبھی ’نیوٹرل‘ کے طعنے سے۔ یہ تھی عمران خان کی حکمت عملی جس کے تحت وہ پاکستان کے لوگوں کو سڑکوں پر اکٹھا ہونے کے لیے متحرک کر رہے تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بتا رہے تھے کہ پاکستان چونکہ دو سیاسی خاندانوں یعنی بھٹو اور شریف کی حکومتوں کو تین دہائیوں سے سہتا رہا ہے اس لیے حالات خاص طور پر اقتصادی نوعیت کے اب سخت خراب ہیں، اتنے خراب کہ اب ’جہاد‘ کا وقت آ گیا ہے جس کے تحت ہر صورت پر اور فوری طور پر حکومت گھر بھیجنا ہو گا۔

چونکہ عمران خان کو ایک آئینی طریقہ کار سے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا تھا، عمران خان نے آپ نے اس بیانیے سے شہباز شریف اور اتحادیوں کی حکومت کو فوری ہٹانا اور یوں سمجھیے پاکستانی عوام کا دینی فرض قرار دے دیا۔

عمران خان کے ہٹائے جانے کے بعد ان کو عوام سے کچھ غیر متوقع طور پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ جہاں عمران خان خود ذاتی طور پر موجود نہیں ہوتے تھے ان کے کہنے پر عوام ان کی حمایت میں احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آتے۔ اس کے بعد پھر عمران خان نے جلسوں کا سلسلہ شروع کیا جو اب تک جاری ہے۔ ہر جلسے میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں۔

خود عمران خان جلسے زیادہ کے پی کے میں کیے ہیں جہاں ان کی جماعت کی حکومت ہے۔ عمران خان کا بیانیہ پاکستان کے بہت سے طبقات میں زور پکڑتا رہا ہے۔ لوگ پاکستان کو ایسا ملک دیکھنا چاہتے ہیں جہاں خوشحالی ہو، قانون کی بالادستی ہو، ایک خود دار ملک جہاں حکومت میرٹ پر اور موثر طریقے سے کام کرے۔ بس یہی دیرینہ خواب جس سے پاکستانی قوم 70 سالوں سے جڑی ہوئی ہے۔

اس ملک میں جہاں کبھی فوج کا کنٹرول رہتا ہے، کبھی منتخب مگر کمزور حکومتوں کے سلسلے، اس لیے یہ خواب پورے نہیں ہوتے ہیں، بلکہ نہایت بگڑتے ہوئے اقتصادی حالات عوام کی مشکلات میں بہت اضافہ کرتے ہیں جس کے بعد حکومت، مقتدر حلقوں، امیر طبقے اور حکومت پر تنقید میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

بلکہ جب کوئی سیاستدان اپنی ذاتی اور سیاسی کہانی سے اپنے بیان سے اور کسی حد تک کام سے پاکستانیوں کو یہ باور کروا دے کہ وہ ان کے دیرینہ خواب کو پورا کریں گے تو پھر ایسا رہنما لوگوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے میں کی حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بس اسی سیاق و سباق میں عمران خان کی حالیہ سیاست آگے بڑھی ہے۔

جو لوگ اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں کہ اس مرتبہ سیاسی اکھاڑے میں جیت کس کی ہو گی، ان کو حالیہ دنوں کے کچھ ابھرتے ہوئے معاملات پر نظر رکھنی چاہیے۔ خاص طور پر پانچ اہم معاملات پر:

ایک: عمران خان کا بالواسطہ اداروں سے رابطہ ہے، ان ’نیوٹرلز‘ سے جن پر وہ تنقید کرتے ہیں۔ فوج کی قیادت نے ٹھان لی ہے کہ معاملات فری فال میں نہیں جانے دیا جائے گا۔ تو چاہے اس میں سابقہ وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا لانا، پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو پشاور سے ہیلی کاپٹر میں لا کر اسلام آباد میں سپیکر ہاؤس میں 25 کی صبح مذاکرات کروانا، سب شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی ٹی آئی میں بہت سے ایسے رہنما ہیں جو نجی محفلوں میں کہتے ہیں اب پنڈی سے جھگڑے ختم ہونے چاہییں، ہمیں ان میں جانا چاہیے، سیاسی مقابلہ حکومت سے کرنا چاہیے۔

نمبر دو: عمران خان لانگ مارچ پر کوئی فوری فیصلہ کرتے نظر نہیں آ رہے۔ اس کے برعکس وہ سپریم کورٹ سے اجازت لینے اس کے انتظار میں ہیں اور فی الحال صبر سے کام لے رہے ہیں۔ اسی سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے سخت سوالات اٹھائے ہیں، اور ایک انکوائری کمیٹی بھی بنائی ہے۔ بہرحال اب جل کوئی نیا مارچ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

تین: پی ٹی آئی کے سیاسی حالات پنجاب میں کافی کمزور ہیں۔ ایک طرف رانا ثنا اللہ کی سخت پالیسی نے اپریل میں 25 کو پی ٹی آئی کے لوگوں کو نکلنے نہیں دیا، وہیں  پی ٹی آئی کی اپنی صوبائی قیادت نے مایوسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیادت کو حال ہی میں تبدیل کر دیا گیا۔

پنجاب میں پی ایم ایل این نے حمزہ شہباز کی حکومت اور آپ نے گورنر کے ذریعے اپنے کو مضبوط کرنا شروع کر دیا ہے۔ کچھ سمجھوتہ پرویز الہٰی کے ساتھ بھی ہو گیا ہے۔ ان حالات میں پنجاب میں ضمنی انتخابات میں ن لیگ کی برتری نظر آتی ہے۔ ان حقائق کو پی ٹی آئی کے سینیئر اور نوجوان لیڈر خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ آپ کس حد تک یہ بات اپنے لیڈر عمران خان تک پہنچاتے ہیں وہ بڑا سوال ہے۔

چار: عمران خان کی کچھ سیاست اور کچھ کرپشن سے منسلک آڈیو ٹیپ سامنے آ رہی ہیں ان کے ذریعے یقینی طور پر پی ٹی آئی پر سیاسی دباؤ اب بڑھتا نظر آئے گا۔ جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے سابقہ خاتونِ اول بشریٰ بی بی کی مبینہ کرپشن کے قصے آڈیو لیکس کی شکل میں سامنے لائے جا رہے ہیں۔ اب دیکھیں یہ آڈیو کہانی کہاں تک جاتی ہے۔ ملک ریاض نے تو اپنی آڈیو کو مسترد کیا ہے۔

پانچ: شہباز شریف کی متحدہ حکومت مہنگائی کے نئے طوفان کی وجہ سے فی الحال مشکلات کا سامنا تو کر رہی ہے، لیکن جو حالات سے مہینے بھر پہلے کے تھے جہاں ان کا رہنا تقریباً ناممکن نظر آرہا تھا، اس کے مقابلے میں فی الوقت اس کے قدم کچھ جمے جمے دکھائی دیتے ہیں۔  

مشکلات اور امتحانات بےانتہا ہیں لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عمران خان کی آنے والے دنوں میں کیا حکمت عملی ہو گی۔ اگر حکمت عملی وہی ہے جو بظاہر دکھائی دیتی ہے کہ اب شاید سڑکوں پرانا فوری لائحۂ عمل کا حصہ نہیں، تو پھر حکومت کے لیے فوری خطرہ ٹلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی فی الوقت حکومت کا ساتھ دیتی دکھائی دے رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ