لگتی تو یہ کل کی بات ہے پر آٹھ برس پہلے پاکستان تحریک انصاف نے تقریبا ڈیڑھ سو دن کا دھرنا دیا یہ کہہ کر کے 2013 کے انتخابات میں بہت دھاندلی ہوئی اور اس پر ایک کمیشن بنایا جائے۔
آخر کار حکومت وقت نے پی ٹی آئی کے مطالبات تسلیم کر لیے ۔ آخر مرتے کیا نہ کرتے۔ جب انتہا کا پریشر پڑا تو آخر کار پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن نے ایک معاہدے پر دستخط کیا۔ اس معاہدے کے تحت ایک عدالتی کمیشن بنایا گیا جس کی صدارت جسٹس ناصرالملک کر رہے تھے۔
اس کمیشن کے نتیجے میں کیا ہوا وہ بہرحال تاریخ کی باتیں ہیں لیکن یہ بات البتہ درست ہے کہ جوڈیشل کمیشن نے وقتی طور پر انتہا کی سیاسی کشیدگی کو کم ضرور کیا۔
تاریخ کے دھارے کی وہ باتیں آج بھی درست ثابت ہو سکتی ہیں؟ اب حکومت وقت کی طرف سے پھر یہ کہا گیا ہے کہ جلد از جلد ایک کمیشن بنایا جائے گا جو مبینہ امریکی سازش کے معاملے پر تحقیقات کرے گا۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے 5 مئی کو اعلان کیا کہ حکومت کا فیصلہ ہے کہ ایک آزاد اور معتبر شخصیت کی سربراہی میں یہ کمیشن فوری طور پر بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ سے اس کے ٹی او آرز یا خدوخال کی منظوری دلوانے کی دیر ہے اور یہ کمیشن کام شروع کر دے گا۔
کمیشن کے معاملے کے حوالے سے سوالات بہت سے ہیں۔ ان میں سے دو اہم یہ ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ کیا کمیشن کا سربراہ موجودہ سپریم کورٹ کا جج ہوگا جیسے کہ اپوزیشن کا مطالبہ ہے اور نمبر دو یہ کہ کیا کمیشن ان ٹی او آرز کے مطابق کام کرے گی جن کا اعلان پی ٹی آئی کی حکومت نے 6 اپریل کو کیا تھا۔ ان ٹی او آرز میں امریکہ کے حکومت کی تبدیلی کی مبینہ سازش میں ملوث ہونے کا تعین، مقامی مبینہ ہینڈلرز کی نشاندہی اور پی ٹی آئی کے منحرف پارلیمانی اراکین جو مبینہ طور پر امریکی سفارت کاروں سے ملنے کی بھی تحقیقات جیسی شرائط شامل تھیں۔
پی ٹی آئی حکومت 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد ہارنے سے دو روز پہلے اس وقت کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے انکوائری کمیشن بنانے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ اس کمیشن جس کا سربراہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طارق خان کو نامزد کیا گیا تھا۔
اس مبینہ سازش کا قصہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اس کیبل سے جوڑا جو پاکستان کے امریکہ میں تعینات سفیر ڈاکٹر اسد مجید نے سات مارچ کو اپنی حکومت کو بھیجا تھا۔ اس میں انہوں نے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی سیکرٹری ڈونلڈ لو سے ملاقات کا خلاصہ بھیجا تھا۔
یقینی طور پر اس میں پاکستان کی حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کے خلاف سخت بیان داغے گئے تھے، مثال کے طور پر یہ کہا گیا تھا کہ اگر عمران خان تحریک عدم اعتماد میں ہار جائیں گے تو پاکستان کو معاف کر دیا جائے گا اور اگر ہار نہ ہوئی تو ان کو اکیلا کر دیا جائے گا۔ ساتھ میں امریکی عہدے دار نے عمران خان کے پاکستانی سفیر کو قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے ذریعے نہ جانے کا کہلوانے کے باوجود روس جانے پر ناراضگی سے مطلع کر دیا تھا۔
غرض کے اس ٹیلی گرام میں یقینی طور پر سفارتی سطح پر پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں کھلی مداخلت کی گئی۔ یہ اطلاع جو پاکستان حکام کو 7 مارچ کو موصول ہوئی لیکن توجہ کا مرکز 27 مارچ کو بننی شروع ہوئی۔
اس کے بعد کے معاملات ایک خاص پیچیدگی اختیار کر گئے جب عمران خان کی حکومت نے پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید کی کیبل میں مداخلت کی باتوں کو ملک میں حکومت میں تبدیلی کی سازش کے کچھ ثبوت بنا کر پیش کیا۔ پی ٹی آئی، اس کے حامی اور پاکستان میں بہت سے لوگ جو تاریخی طور پر امریک کے ساتھ تعلقات کو ناانصافی، دوہرے معیار اور دھوکے کی بھرمار مانتے ہیں، وہ سب پی ٹی آئی کی امریکی سازش کے بیان کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے عمران خان کے حق میں اس وقت سیاسی طور پر کھڑے ہو گئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت عمران خان کی سیاست کا اہم محور امریکی سازش اور اس کے نتیجے میں مبینہ ’امپورٹڈ‘ حکومت کا قیام اور ساتھ میں مقامی سازشیں میر صادق اور میر جعفر بن گئے ہیں جتنا کہ پچھلے 26 سال سے ان کا ناانصافی اور کرپشن کا بیانیہ رہا ہے۔ یقینی طور پر امریکی سازش کا سوال پاکستان کی سیاست، ریاست اور پاور پلے کا سب سے اہم سوال بن گیا ہے۔
اس وقت بات گھروں میں، سڑکوں پر، دکانوں میں اور اہم مقامات پر بھی یہی ایک بڑا سوال بن گیا ہے۔ مہنگائی عام شہریوں کی جیبوں اور پیٹ پر بہت بھاری ثابت ہو رہی ہے لیکن لگتا ہے کہ شہروں میں بسنے والوں اور سوشل میڈیا کے ہتھے چڑھے شہروں میں مقیم لاکھوں پاکستانیوں کے جذبات یقینی طور پر مبینہ امریکی سازش کے سوال کو اپنا ایک اہم محور بنائے ہوئے ہیں۔
تو پھر معاملہ مبینہ امریکی سازش کا بےحد اہم ٹھہرا ہے۔ اسی واسطے شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو فوری طور پر کمیشن پر کام شروع کرنا چاہیے۔ جہاں پہلا اہم سوال کمیشن کے ٹی او آرز کا ہے تو دوسرا اہم سوال کمیشن کی سربراہی کا ہے۔ یاد رہے کہ اپنے دور میں پی ٹی آئی حکومت نے جب 7 اپریل کو کمیشن بنانے کا اعلان کیا تو اس کی سربراہی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طارق سے کروانی تھی لیکن انہوں نے سے انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ وہ ایک دو روز کی کمیشن نہیں بن سکتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت دو دن بعد ویسے بھی برطرف ہو گئی تھی لیکن اس سے بھی اہم اور دلچسپ معاملہ یہ تھا کہ جنرل طارق پہلے ہی اس وقت کیا پوزیشن کے خلاف بیانات داغ چکے تھے۔ سربراہی کے سوال کا معاملہ بہت سیدھا ہے، منطقی بات تو یہی ہوگی کہ سربراہی وہ کرے جو اپوزیشن کو قابل قبول ہو جیسے کہ 2015 میں نواز شریف حکومت نے کیا تھا۔
عمران خان پہلے ہی صدر پاکستان اور چیف جسٹس سے 29 اپریل کو خط کے ذریعے یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ فوری طور پر ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ عمران خان کا یہ لکھنا تھا کہ پاکستان کی عوام چیف جسٹس سے یہ توقع کیے ہوئے ہے کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لے کر فوری طور پر کمیشن بنائیں گے جس کی سربراہی وہ خود کریں گے۔
اس خط میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ چونکہ چیف جسٹس نے ابھی تک یہ قدم نہیں اٹھایا لہذا لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں کیوں کہ انہیں کچھ مایوسی کا سامنا ہے۔ کورٹ سے مایوسی کا معاملہ عمران خان متعدد مرتبہ اٹھا چکے ہیں، خاص طور پر جب سپریم کورٹ نے آئینی معاملات کو دیکھتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کے خلاف فیصلہ دیا۔
بہرحال اس وقت کی سیاسی صورت حال دیکھتے ہوئے جہاں اب جلسوں، سیاسی جھگڑوں، قانونی جنگوں، اداروں کی کھینچا تانی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بگڑتی ہوئی معیشت جیسے اہم ترین مسائل کی موجودگی میں حکومت کی نہایت بےعقلی اور غیرذمہ داری کا مظاہرہ ہوگا اگر وہ فوری ترجیحی بنیاد پر کابینہ سے منظوری کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن بنا نہیں دیتی۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔