فیصل آباد پولیس نے جمعے کو بتایا ہے کہ ساندل بار کے علاقے میں منگل کو ڈکیتی کے دوران خاتون سے مبینہ گینگ ریپ کے مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ دیگر دو ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مرکزی ملزم کی گرفتاری مدعی کی شناخت پر کی گئی لیکن اس بارے میں مزید تحقیقات جاری ہیں۔
پولیس کے مطابق واقعے کا مقدمہ جمعرات (26 مارچ) کو خاتون کے شوہر عدنان مسیح کی مدعیت میں دفعہ 375 اے اور 392 کے تحت درج کروایا گیا تھا، جس میں انہوں نے اپنے ہی گاؤں کے ایک شخص کو بطور ملزم نامزد کیا۔
عدنان مسیح نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی بیوی ایگریکلچر یونیورسٹی، فیصل آباد میں سرکاری ملازم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 25 مارچ کو ’میں اپنی بیوی کو موٹر سائیکل پر ایگریکلچر یونیورسٹی ہاسٹل سے لے کر پونے دس بجے کے قریب گھر کی طرف جا رہا تھا۔ جب ہم موٹر وے پل 62 ج ب چنن کی سروس روڈ پہنچے تو دو مسلح افراد نے روک کر اسلحے کے زور پر 800 روپے اور موبائل فون جیب سے نکال لیے۔ پھر ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا اور قریبی درخت سے مجھے باندھ دیا۔ میری بیوی کو زبردستی قریب ہی گنے کے کھیت میں لے گئے۔
’اسی دوران ملزمان نے اپنے ایک تیسرے ساتھی کو بلایا جو موٹر سائیکل پر وہاں پہنچا۔ ان تینوں نے میری بیوی سے اجتماعی زیادتی کی۔ اس کے بعد وہ وہاں سے روانہ ہوگئے۔ ہم بڑی مشکل سے گھر پہنچے اور سارا واقعہ گھر والوں کو بتایا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’رات زیادہ ہوچکی تھی اس لیے واقعے کے اگلے روز یعنی 26 مارچ کو تھانے جا کر مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی، جس کے بعد پولیس نے کارروائی شروع کی۔ ملزم کو ہم نے ہی شناخت کیا۔‘
ملزم کی پہچان کیسے ہوئی؟
عدنان مسیح نے بتایا: ’میں نے پولیس کو 26 مارچ کو درخواست دی کہ ہم اپنے گاؤں کے چوک میں کھڑے تھے، وہاں سے ہمارے ہی گاؤں کا رہائشی علی شیر گزرا تو میں نے اسے پہچان لیا۔ ہم اس کے پیچھے اس کے گھر گئے۔ اس نے وقوعہ تسلیم کیا اور دیگر دو ساتھیوں کا نام بتانے کا بھی وعدہ کیا، لیکن اب صاف انکاری ہو گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’ملزم علی شیر ہی جائے وقوعہ پر دیگر ملزمان کو ساتھ لے کر آیا تھا۔ اس نے بھی دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر میری بیوی سے زنا بالجبر کیا۔‘
پولیس نے عدنان مسیح کی درخواست پر مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا۔
فیصل آباد پولیس کے ترجمان منیب گیلانی نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس کیس میں پولیس اعلیٰ سطح کی تفتیش کر رہی ہے، لیکن اس میں کچھ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ ایک تو مدعی مقدمہ نے واقعے کے 12گھنٹے بعد مقدمہ درج کروانے کی درخواست دی۔ پولیس ہیلپ لائن پر کال کر کے پولیس کو جائے وقوعہ پر بھی نہیں بلایا گیا۔ پھر مدعی نے ملزم کو خود ہی شناخت کر کے پولیس کو درخواست دی، جس کے بعد ملزم کوگرفتار کر لیا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس حوالے سے میڈیکل رپورٹ اور فرانزک لیب کو بھجوائے گئے نمونوں کے بعد ہی حتمی طور پر الزامات کے حوالے سے کچھ کہا جا سکتا ہے۔‘
ستمبر 2020 میں تین بچوں کے ساتھ موٹر وے پر لاہور سے گوجرانوالہ کا سفر کرنے والی خاتون کے ساتھ بھی دوران ڈکیتی گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا تھا۔ دو مسلح افراد نے خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا، جب وہ گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کا انتظار کر رہی تھیں۔
اس واقعے میں ملوث دو ملزمان عابد ملہی اور وقار الحسن کو پولیس نے گرفتار کیا تھا اور بعدازاں 20 مارچ 2021 کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے واقعے میں ملوث دونوں مجرموں کو سزائے موت سنا دی تھی۔