اسرائیل کی اتحادی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے پارلیمان (نیسیٹ) تحلیل کردے گی، جس کے بعد ملک میں تین سالوں میں پانچویں عام انتخابات منعقد ہوں گے اور ممکنہ طور پر سابق وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کی حکومت میں واپسی کی راہ ہموار ہوگی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک خطاب میں وزیر خارجہ یائر لاپیڈ کے ہمراہ کھڑے وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے کہا: ’ہم آج آپ کے سامنے ایک ایسے موقع پر کھڑے ہیں جو آسان نہیں، مگر ہمارے خیال میں ہم نے اسرائیل کے لیے صحیح فیصلہ کیا ہے۔‘
وزیراعظم نفتالی بینیٹ کے ترجمان کے مطابق اتحادی حکومت پارلیمان میں اگلے ہفتے ایوان کی تحلیل کا بل پیش کرے گی، جس کے بعد یائر لاپیڈ عبوری وزیراعظم ہوں گے۔
خطاب میں وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے کہا کہ انہوں نے مشکل حالات میں ’صحیح فیصلہ‘ کیا اور کہا: ’ہم نے مل کر اسرائیل کو کھائی سے باہر نکالا۔ ہم نے اس سال بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے دور حکومت میں تین سال میں پہلی بار قومی بجٹ منظور ہوا اور کرونا وائرس کی دو لہریں آئیں مگر لاک ڈاؤن لگائے بغیر اس کا کامیابی سے سامنا کیا گیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق نفتالی بینیٹ کی سربراہی میں غزہ کی پٹی کے ساتھ سرحد پر زیادہ تر خاموشی رہی تاہم مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں حالات کشیدہ رہے اور فوج کے ساتھ جھڑپوں میں کئی فلسطینی جان سے گئے۔ ان کی اتحادی عرب پارٹی کو بھی اسرائیل کے عرب خطے میں غربت اور دیگر مسائل کے حل کے لیے فنڈ ملے۔
مزید پڑھیے: صرف ایک ووٹ نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا 12 سالہ دور ختم کر دیا
نفتالی بینیٹ کے وزیر خارجہ یائر لاپیڈ نے کہا: ’اگرچہ ہم کچھ ماہ میں انتخابات کی جانب جا رہے ہیں، ہمیں ریاست کے طور پر پیش مشکلات انتظار نہیں کر سکتیں۔ ہمیں آج اسرائیلی اتحاد کی طرف جانا ہے۔ تاریک قوتوں کو اندر سے ہمیں توڑنے سے روکنا ہے۔‘
نفتالی بینیٹ، جو سابق وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے سابق اتحادی اور معاون رہے ہیں، نے ایک سال پہلے یہ مخلوط حکومت قائم کی تھی، جس کا مقصد بار بار انتخابات کے سلسلے کو روکنا تھا۔ مگر اس کمزور اتحادی حکومت نے رواں سال اپنی اکثریت کھو دی اور حالیہ ہفتوں میں دیگر قانون سازوں نے بغاوت بھی کی ہے۔
نفتالی بینیٹ کے اتحاد میں مختلف سیاسی نظریوں کی پارٹیاں شامل ہیں، سخت گیر قوم پرست سے لے کر فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کرنے والی پارٹیوں تک۔ بہت سی پارٹیوں میں مشترک کچھ نہیں تھا، سوائے اس کے کہ وہ نتن یاہو کے خلاف تھیں۔ اس اتحاد کو اکثر ایک ’تجربہ‘ قرار دیا جاتا تھا اور اس میں اسرائیلی تاریخ میں پہلی بار ایک عرب جماعت بھی شامل تھی۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیلی پارلیمنٹ ایک مرتبہ پھر تحلیل کی جانب گامزن
سابق وزیراعظم نتن یاہو، جو گذشتہ ایک سال سے حزب اختلاف کے سربراہ ہیں، نے پارلیمان کی تحلیل کے اعلان کو لاکھوں اسرائیلیوں کے لیے ’اچھی خبر‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ اگلے انتخابات کے بعد اپنی پارٹی لیکود کی سربراہی میں ’وسیع قوم پرست حکومت‘ قائم کریں گے۔
ان کا کہنا تھا: ’ہواؤں کا رخ بدل گیا ہے۔ میں محسوس کر سکتا ہوں۔ اسرائیلی ریاست کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے اور ہم میں ایسا کرنے کی صلاحیت ہے۔‘
پارلیمان کی تحلیل کا اعلان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب اگلے ماہ امریکی وزیر اعظم جو بائیڈن کا دورہ متوقع ہے۔
اسرائیل میں 2019 سے 2021 کے درمیان چار انتخابات ہوئے ہیں، جو زیادہ تر نتن یاہو کی ملک کی سربراہی کے لیے اہلیت پر رائے شماری تھے، جن کے خلاف کرپشن کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وہ ان الزمات کی تردید کرتے ہیں۔
پولز سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ نتن یاہو کی لیکود پارٹی ایک بار پھر فاتح ہوگی، مگر ابھی یہ واضح نہیں کہ وہ حکومت قائم کرنے کے لیے درکار اکثریت کو حاصل کر سکیں گے یا نہیں۔