پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کی پولیس کے مطابق ایک سرکاری ہسپتال کے عملے میں شامل اہلکار نے مبینہ طور پر پانچ سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا جسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سرکاری ہسپتال کے گائنی وارڈ میں داخل مریضہ کے ساتھ آنے والی پانچ سالہ بچی پر جنسی حملے کا مقدمہ مظفرآباد کے سیکرٹریٹ تھانے میں درج ہونے کے بعد ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے، جب کہ ہسپتال انتظامیہ نے بھی ملزم کو معطل کرکے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
واقعہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب نو بجے کے قریب مظفرآباد کے ہسپتال عباس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمز) کے گائنی وارڈ سے ملحقہ کمرے میں پیش آیا۔
مظفرآباد کے نواحی علاقے کی رہائشی خاتون پچھلے 20 دن سے ہسپتال میں داخل ہیں اور ان کے شوہر ان کی تیمار داری کے لیے اپنے دو بچوں، پانچ سالہ بیٹی اورایک سالہ بیٹے کے ساتھ ہسپتال میں ہی ٹھہرے ہوئے ہیں۔
پولیس کو دیے گئے ابتدائی بیان میں متاثرہ بچی کے والد نے بتایا کہ ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں اس لیے وہ بچوں کو ساتھ ہسپتال میں ہی رکھتے ہیں۔ دن کو بچے ماں کے پاس ہوتے ہیں اور رات کو وہ انہیں لے کر ہسپتال کے احاطے میں ہی سو جاتے ہیں۔
’اس دن ڈیوٹی پر موجود ہسپتال کے 40 سالہ اہلکارنے کہا کہ باہر مچھر ہیں، بچوں کو لے کر اندر کمرے میں آجاؤ۔ میں پانچ سالہ بچی کو کمرے میں چھوڑ کر وارڈ میں اہلیہ کے پاس گیا کہ دیکھ کر آؤں اسے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔
’تھوڑی دیر بعد میری بیٹی وارڈ میں روتی ہوئی داخل ہوئی اوربتایا کہ میری کپڑوں پر کچھ لگا ہے۔ میں اسے لے کر واش روم میں گیا، پوچھنے پربچی نے بتایا کہ جن انکل کے پاس آپ نے مجھے چھوڑا تھا، انہوں نےمجھے ڈرایا ہے۔‘
ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے متاثرہ بچی کے والد نے بتایا کہ بچی خوف سے کانپ رہی تھی اور مجھے بتایا کہ ’آپ کے جاتے ہی انکل نے مجھے ڈرایا۔ انکل کے پاس ٹیکہ تھا، انہوں نے کہا شور کیا یا کسی کو بتایا تو ٹیکہ لگا دوں گا۔‘
والد کے مطابق بچی نے اس واقعے کی کچھ اور تفصیلات بھی بتائیں جنہیں یہاں نقل نہیں کیا جا رہا۔
تھانہ سیکریٹریٹ کے ایس ایچ او جاوید گوہر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ واقعے کے چند گھنٹے کے اندر ہی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بچی کو بھی تحویل میں لے کر اس کا طبی اور جسمانی معائنہ کروا لیا گیا تھا۔
ایس ایچ او کے بقول: ’بچی جسمانی طور پر محفوظ ہے مگر اسے سخت ذہنی صدمہ پہنچا ہے اور وہ ڈری ہوئی ہے۔ اسے فی الحال والد کی تحویل میں دے دیا گیا ہے، تاہم ضرورت پڑی تو اس کی ذہنی اور جسمانی صحت جانچنے کے لیے دوبارہ معائنہ کروایا جائے گا۔‘
ایس ایچ او کے بقول پولیس نے تمام دستیاب شواہد اکٹھے کرکے انہیں فرانزک چانچ پڑتال کے لیے لیباریٹری بھجوا دیا گیا ہے۔ رپورٹ آنے پر انہیں بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے گا۔
ان کے بقول بچی کے والد نے کم علمی کی وجہ سے بچی کے کپڑے فوری طور پر دھو کر کافی سارے شواہد کو مٹا دیا۔ البتہ اس کے باوجود اتنے شواہد موجود ہیں کہ ملزم کو سزا دلوائی جاسکے۔
بچوں کے ریپ پر جنسی صلاحیت سے محرومی
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نابالغ بچوں کے ریپ یا ریپ کی کوشش پر عمر قید اور جنسی صلاحیت سے محرومی کی سزا مقرر ہے۔ 2020 میں ’آزاد جموں و کشمیر پینل کوڈ‘ کی دفعات 337 اے اور 352 اے میں ترمیم کے ذریعے ان سزاوں کو قانون کا حصہ بنایا گیا۔
اس قانون کے تحت عدالت بچوں کے ریپ کا یا ریپ کی کوشش کے مقدمات کی سماعت 60 دن میں اور انتہائی ناگزیر حالات میں 90 دن کے اندر مکمل کرنے کی پابند ہے۔
عدالت کی جانب سے جنسی صلاحیت سے محرومی کی سزا ملنے پر یہ عمل سرجری کے ذریعے مکمل کیا جائے گا۔ تاہم اگر سرجری کے دوران مجرم کی ہلاکت کا خدشہ ہو تو سزا کا یہ عمل کیمیکل کے ذریعے ہوگا۔
اس قانون کے مطابق بچوں کے ساتھ ریپ یا ریپ کی کوشش ثابت ہونے پر مجرم کو 10 سال قید اور 10 سے 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
ریپ کے کیسز میں صلح کے لیے دباؤ
متاثرہ لڑکی کے والد کے بقول علاقے کے کئی با اثر لوگ اس پر صلح کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ’اپنی درخواست واپس لے لو اس کے بدلے پیسے لے لو۔‘
ایس ایچ او جاوید گوہر کے مطابق بچی کے والد نے پولیس کو بھی بتایا ہے کہ انہیں صلح کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ ’ہم جائزہ لے رہے ہیں۔ اگر واقعی انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہوا تو ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کریں گے۔‘
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹس کے مطابق 2020 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ریپ اور گینگ ریپ کے کل 12 اور 2021 میں کل 14 کیس رپورٹ ہوئے۔ جبکہ میڈیا میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
بچی کے ریپ پر وزیر اعظم کا نوٹس
دوسری جانب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم سردار تنویر الیاس نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی رپورٹ طلب کرلی ہے جس کے بعد ہسپتال انتظامیہ نے ملزم کو نوکری سے معطل کرتے ہوئے تین افسران پر مشتمل انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جو اگلے تین روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔