نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر ویز پولیس نے ’ڈی میرٹ پوائنٹس سسٹم‘ پر عمل درآمد شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت مختلف خلاف ورزیوں پر ڈرائیور کو جرمانے کے ساتھ ڈرائیونگ لائسنس پر پوائنٹس کٹنے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
موٹرویز اور نیشنل ہائی ویز پر پوائنٹس سسٹم قانون پہلے سے موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا، تاہم اب موٹروے پولیس نے اس پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی ہے اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے آگہی کے لیے تشہیر بھی کی گئی ہے۔
پوائنٹس سسٹم کیا ہے؟
نیشنل ہائی وے اینڈ سیفٹی آرڈیننس کی شق نمبر 86 کے مطابق موٹروے اور ہائی ویز پر دوران ڈرائیونگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے کے ساتھ ساتھ ڈرائیونگ لائسنس پر پوائنٹس کاٹے جائیں گے۔
اس قانون کے مطابق پوائنٹس جب دو سالوں میں 10 تک پہنچ جائیں تو ڈرائیور کو وارننگ دی جائے گی اور مزید خلاف ورزی پر جب یہ پوائنٹس 20 تک پہنچ جائیں گے تو ڈرائیور کا لائسنس چھ ماہ سے ایک سال تک کے لیے منسوخ کردیا جائے گا۔
یہ پوائنٹس مختلف ٹریفک خلاف ورزیوں کے لیے الگ الگ ہیں۔ خلاف ورزیوں کے حوالے سے ہائی وے آرڈیننس کے شیڈول نمبر11 میں تفصیل موجود ہے۔
اس شیڈول میں ہر ایک خلاف ورزی کے لیے الگ الگ پوائنٹس موجود ہیں اور متعلقہ خلاف ورزی کی صورت میں وہ پوائنٹس جمع ہوتے جائیں گے۔
ان خلاف ورزیوں میں سرفہرست وہ روڈ حادثہ ہے جس میں کسی کی موت واقع ہوجائے اور اس صورت میں ڈرائیور کے خلاف 15 پوائنٹس کا اضافہ ہوگا اور جب یہ 20 تک پہنچ جائیں تو لائسنس چھ مہینے یا ایک سال تک منسوخ کردیا جائے گا۔
مزید پڑھیے: پولیس پیچھے دیکھ کر نوجوان بھول گیا کہ وہ ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس ہے
اسی طرح شیڈول کے مطابق وہ حادثہ جس میں کوئی شدید زخمی ہو جائے تو اس صورت میں ڈرائیور کے 10 پوائنٹس کاٹے جائیں گے اور اسے وارننگ بھی دی جائے گی جبکہ معمولی زخمی ہونے کی صورت میں آٹھ پوائنٹس اور حادثے میں کسی پراپرٹی کو نقصان پہنچنے کی صورت میں چھ پوائنٹس کاٹے جائیں گے۔
اسی طرح شیڈول کے مطابق اگر ڈرائیور نے بغیر کسی وجہ کے حادثے کو روکنے کی کوشش نہیں کی تو اس کے دس پوائنٹس جبکہ منسوخ شدہ لائسنس پر گاڑی چلانے پر بھی 10 پوائنٹس کاٹے جائیں گے۔
اوورلوڈنگ کی صورت میں چھ پوائنٹس، نشے کی حالت میں گاڑی چلانے کی صورت میں آٹھ پوائنٹس، ٹریفک سگنلز کی خلاف ورزی کی صورت میں چھ پوائنٹس، حد رفتار سے 40 کلومیٹر فی گھنٹہ سپیڈ سے زائد گاڑی چلانے کی صورت میں چھ پوائنٹس، غلط اوورٹیکنگ پر چھ پوائنٹس، یونیفارم میں پولیس کی طرف سے روکنے کی اشارے پر نہ روکنے کی صورت میں چھ پوائنٹس کاٹے جائیں گے۔
اسی طرح ون وے روڈ پر غلط لین پر چلنے کی صورت میں چار پوائنٹس، سٹاپ سائن پر نہ روکنے کی صورت میں چار پوائنٹس، ریلوے ٹریکس پر غلط کراسنگ کی صورت میں چار پوائنٹس، رات کے وقت خراب لائٹ والی گاڑی چلانے کی صورت میں چار پوائنٹس، غلط یو ٹرن لینے، پیدل چلنے والوں کو راستہ نہ دینے، پچھلی سکرین کور کرنے کی صورت میں، ہیڈ لائٹ بند نہ کرنے کی صورت میں، نئے ڈرائیورز کی حفاظت نہ کرنے، احتیاط سے گاڑی نہ چلانے کی صورت میں ڈرائیور کے خلاف دو دو پوائنٹس کاٹے جائیں گے۔
وہ خلاف ورزیاں جن کی وجہ سے تین پوائنٹس کا اضافہ ہوگا، ان میں خراب بریک والی گاڑی چلانا، خراب سٹیئرنگ، خراب ٹائر، مختلف قسم کے ایکسلز کے استعمال، گاڑی کے زیادہ شور کرنے اور زیبرا کراسنگ پر نہ رکنے جیسی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔
پوائنٹس سسٹم کیوں نافذ کیوں کیا گیا؟
موٹروے پولیس کے ترجمان ياسر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’موٹروے پولیس نے پورے پاکستان سے 80 لاکھ سے زائد ڈرائیونگ لائسنس کا ڈیٹا محفوظ کرلیا ہے اور نیشنل ہائی وے اینڈ سیفٹی آرڈیننس کے تحت اب ہر چالان کے ساتھ ڈرائیونگ لائسنس پر پوائنٹس کاٹے جائیں گے۔‘
انہوں نے بتایا: ’سابقہ تمام چالانوں کا ریکارڈ اب شناختی کارڈ، موبائل نمبر یا لائسنس نمبر کی مدد سے حاصل کیا جا سکے گا اور لائسنس کا ایک پورا ڈیٹا بیس موٹروے پولیس کے پاس موجود ہوگا۔‘
یہ بھی پڑھیے: فیصل آباد ٹریفک پولیس کا خواتین کے لیے بائیک ڈرائیونگ پروگرام
یاسر محمود نے بتایا کہ موٹروے پولیس ایک قومی سطح کی پولیس ہے اور چار ہزار سے زائد کلومیٹر کی سڑکوں پر ڈیوٹیاں سر انجام دیتی ہے۔ اس لیے ’گلگت بلتستان، اسلام آباد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سمیت تمام صوبوں پر پوائنٹس سسٹم کے یہ قوانین نافذ العمل ہوں گے اور تمام صوبوں کی مشاورت سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’اسلام آباد پولیس نے ڈمی پوائنٹس کا آغاز کیا ہے۔ باقی صوبے بھی اس پر جلد ہی کام شروع کریں۔ اس کا بنیادی مقصد لوگوں کو یہ باور کروانا ہے کہ ٹریفک قوانین کی پاسداری کریں اور ٹریفک حادثات کی شرح میں جتنا ممکن ہوسکے، کمی لاسکیں۔‘
یہ پوائنٹس سسٹم برطانیہ، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈ، ناروے، امریکہ کی کچھ ریاستوں، فرانس، نیوزی لینڈ، سنگاپور سمیت دنیا کے مختف ممالک میں پہلے سے نافذ ہے اور وہاں اس پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔‘
یاسر کا کہنا تھا: ’جیسے باقی دنیا میں یہ نظام رائج ہے تو پاکستان میں بھی ہم چاہتے ہیں کہ یہ نظام رائج ہو اور اس کے دور رس نتائج سامنے آسکیں۔‘