افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ ملک بھر سے تقریباً تین ہزار افراد کو بدھ کو دارالحکومت کابل میں لویا جرگہ ہال میں ایک اجتماع میں مدعو کیا گیا ہے۔
اگرچہ طالبان حکام نے اجتماع کے ایجنڈے کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں تاہم کہا جا رہا ہے کہ لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھولنے کا مسئلہ ایجنڈے میں شامل ہوسکتا ہے۔
بعض شرکا کے مطابق طالبان اس اجلاس کے ذریعے اپنے نظام کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں اور شرکا سے بیعت کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ طالبان کو افغانستان کا کنٹرول سنبھالے تقریباً چھ ماہ ہوچکے ہیں لیکن اب تک کسی ملک نے انہیں تسلیم نہیں کیا ہے۔
اگرچہ اجلاس کی صحیح تاریخ یا دن کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے، لیکن غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق یہ بدھ کو شروع اور جمعے کو ختم ہو سکتا ہے۔
افغان نیوز چینل ’طلوع‘ کا کہنا ہے کہ ہر گاؤں سے تین نمائندوں کو مدعو کیا جانا ہے، جن میں زیادہ تر علما شامل ہیں۔ توقع ہے کہ یہ اجلاس تین دن تک جاری رہے گا جسے ریڈیو پر نشر تو کیا جا سکے گا لیکن ٹی وی پر نہیں۔
طالبان کے ایک بیان کے مطابق قندھار میں طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں، وزرا کی کونسل نے کابل میں افغانستان پر ایک اہم اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
بیان کے مطابق وزرا کی کونسل نے یہ حکم ’کونسل آف علما‘ کی بار بار کی درخواست کے بعد جاری کیا۔
اسلامی امارت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ان کی قیادت نے بہت سے علما کی جانب سے اس طرح کا اجتماع طلب کرنے کی کال کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔
تعداد کثیر از علماء کرام از مقام رهبری امارت اسلامی با اصرار زیاد خواهان دائر نمودن یک گردهمایی بودند.
رهبری امارت اسلامی نیز خواست آنها را پذیرفته و عنقریب یک گردهمایی بزرگ علماء در کابل دایر میگردد.
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) June 27, 2022
حقوق نسواں کی ایک کارکن مریم ماروف نے کہا کہ انہیں توقع یہ ہے کہ تمام قبائل خصوصاً خواتین کو ایسے اجلاس میں مدعو کیا جائے گا جہاں وہ خود اپنے حقوق کے بارے میں بات کر سکیں۔
ایک سیاسی تجزیہ کار جاوود سندیل نے کہا کہ جب تک ماہرین کے خیالات کو شامل نہیں کیا جاتا اور موجودہ چیلنجوں کا جائزہ نہیں لیا جاتا، اس طرح کے خیالات افغانستان کو مزید مسائل کا شکار کریں گے اور موجودہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔
ادھر ہیومن رائٹس واچ نے شرکا پر زور دیا کہ وہ اس اجتماع میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق پر تبادلہ خیال کریں۔ ’ہم اس بات کی بہت امید کر رہے ہوں گے کہ طالبان اس جرگے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بہتری لانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔‘
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق ڈویژن کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار نے کہا کہ ’وہ جانتی ہیں کہ طالبان کے اندر اس پر رائے منقسم ہے۔‘
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ اجتماع کب تک جاری رہے گا لیکن کابل پولی ٹیکنک یونیورسٹی نے جہاں یہ اجتماع منعقد ہونا ہے، آٹھ دن کے لیے بند کر دی ہے۔
مزید پڑھیے: افغان طالبان کے خلاف نیا اتحاد
طالبان کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس اجلاس کے انعقاد کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، جس کی سربراہی طالبان کے نائب وزیراعظم ملا برادر کر رہے ہیں۔
طالبان کے وزیراعظم کے ایک بیان کے مطابق اس اجلاس میں شرکت کے لیے نامزد کیے گئے افراد کو یا تو ’متقی‘ ہونا چاہیے یا انہوں نے ’جہاد‘ میں حصہ لیا ہو۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہر شہر سے ’دو مذہبی سکالرز اور ایک بااثر شخص‘ کو مدعو کیا جائے۔ جن صوبوں میں علما کونسل موجود ہے وہاں کونسل کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین تین مزید شرکا نامزد کر سکتے ہیں۔
اجلاس میں شریک افراد کی تعداد واضح نہیں ہے تاہم اجلاس میں شرکت کے لیے لوگوں کو نامزد کرنے کے لیے بیان صوبوں کو بھیجا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ فارسی کو ایک اور خط ملا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے کابل پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے سربراہ سے کہا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیمی ادارے کو بند کر دیں۔
یہ بھی پڑھیے: لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی: ’طالبان کا مستقل فیصلہ ہوسکتا ہے‘
طالبان نے افغانستان پر دوبارہ قبضے کے بعد گذشتہ 10 ماہ میں ملک کے بیشتر شہریوں پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ مثال کے طور پر افغان لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا ہے، خواتین کو کام کرنے یا سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے اور گھر سے نکلتے وقت انہیں لمبا، قومی حجاب پہننا اور اپنا چہرہ ڈھانپنے کی ہدایت کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے شعبے کی سابق سربراہ حیدر بار نے ٹویٹ کیا کہ طالبان خواتین کو نظر انداز کر رہے ہیں لیکن لوگوں کو امید ہے کہ صورت حال بدل جائے گی۔ ہائیڈر بار کا کہنا ہے کہ جو لوگ اپنے فیصلوں میں خواتین کو نظر انداز کرتے ہیں انہیں قانونی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی افغانستان کی ڈائریکٹر سمیرا حمیدی نے اس خبر کے جواب میں کہا کہ طالبان ایک ’لویا جرگہ‘ منعقد کرنا چاہتے ہیں کیونکہ دنیا اور انسانی حقوق کے محافظ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ پکتیکا اور خوست میں زلزلہ زدگان کی کس طرح مدد کی جائے، لیکن اس جرگے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور یہ طالبان کے حامیوں کے درمیان ملاقات ہوگی۔
مزید پڑھیے: لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی: عالمی بینک نے افغان منصوبے روک دیے
محترمہ حمیدی کا الزام تھا کہ اس اجلاس کے انعقاد سے عالمی میڈیا کو اس گروہ کو فروغ دینے کا موقع ملے گا۔
انہوں نے طالبان کو ایک ’نااہل گروپ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے 40 ملین شہریوں کی قسمت کا انحصار ایک ایسے گروہ پر ہے جو کسی قانون کا احترام نہیں کرتا اور افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ نہیں۔
سمیرا حمیدی اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں پر طالبان کی حمایت کا الزام بھی لگاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے طالبان کے ساتھ سلوک سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں مردوں اور خواتین کے خلاف تشدد انہیں طالبان کی حمایت سے روکنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
نوٹ: اس مضمون کے لیے انڈپینڈنٹ فارسی سے بھی مدد لی گئی ہے۔