پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک ہمارا انصاف بھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دیگر چیزوں کی طرح انصاف کے بارے میں بھی ہم مکمل طور پر واضح نہیں ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے۔
ہم جب انصاف کی بات کرتے ہیں تو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عدالتوں کا نظام بہتر ہونا چاہیے جو یقیناً ضروری ہے۔ مگر عدالت انصاف کا نظام قائم کرنے میں آخری سیڑھی ہے جس سے پہلے بہت سے مراحل آتے ہیں، جب ہم سب مل کر ناانصافی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ برطانوی سامراج میں حکمرانوں اور محکوم عوام کے لیے انصاف کے دو الگ معیار تھے اور ان کے جانے کے بعد بھی اب تک ایسا ہی ہے۔ مگر اب حکمران طبقہ جب آپس میں بھی لڑتا ہے تو ان ہی دو نظاموں کو استعمال کرتا ہے۔
یہی بات کچھ مثالوں سے واضح کرنا چاہتا ہوں۔ مثلاً جب کوئی سرکاری ادارہ کسی کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتا ہے تو یہ فیصلہ ایک شخص نہیں بلکہ کئی اشخاص مل کر کرتے ہیں۔ یہ بےانصافی کی وہ پہلی سیڑھی ہے جب کوئی ایک بھی شخص اپنے آپ یا دوسرے لوگوں سے یہ سوال نہیں کرتا کے جو ہم کرنے جا رہے ہیں کیا وہ قانونی اور آئینی عمل ہے؟
چند روز پہلے وفاقی وزیر داخلہ نے ایک انٹرویو دیا جو متضاد باتوں سے بھرپور تھا مگر وہ اپنے آپ کو معصوم اور بھولا ثابت کرنے پر مصر تھے۔ اس کے اگلے دن رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے اے این ایف کو 15 کلو منشیات مل گئیں۔ اگر رانا ثنا اللہ پر منشیات کا الزام غلط ثابت ہوا تو کیا ان عہدیداروں کے خلاف کارروائی ہوگی جو اس میں ملوث ہیں۔ جواب ہے کہ نہیں ہوگی!
دوسری مثال یہ ہے کہ جب لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کا رویہ کچھ اور ہوتا ہے اور جب وہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو یکسر بدل جاتے ہیں۔ یہ رویہ جو ہمیں برطانوی سامراج دے کر گیا ہے اب تک چل رہا ہے اور اس میں عمران خان کے دور میں مزید تیزی آئی ہے کیونکہ وہ ویسے بھی آدھے برطانوی ہیں جس کا دعویٰ وہ خود کئی دفعہ کر چکے ہیں۔ رانا ثنا اللہ بھی ایک اچھی مثال ہیں کہ جب وہ اقتدار میں تھے تو ان کے زیرانتظام پنجاب پولیس نے مبینہ طور پر ماڈل ٹاؤن میں 14 جانیں لے لیں جو ایک ظالم حکمران ہی کر سکتا ہے۔ آج وہ خود مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور اب ان کو ثابت کرنا ہے کہ وہ 15 کلو منشیات لے کر نہیں جا رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیسری مثال یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اُن گناہوں کی سزا نہیں دیتے جس کے وہ واقعی مرتکب ہوئے ہیں بلکہ ان مقدمات میں انہیں سیاسی یا ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لیے پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی صحت مشکوک ہو۔ اب رانا ثنا اللہ کی ہی مثال لے لیں ماڈل ٹاؤن کے واقعے میں ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکا مگر اب منشیات رکھنے کے الزام میں گرفتار ہیں جس پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں اور ہر طرف سوال اٹھ رہے ہیں کہ یہ ریاستی اداروں کا سیاسی استعمال ہے۔ اس صورتحال سے بھی بے انصافی بڑھتی ہے۔
چوتھی مثال یہ ہے کہ ریاست کے جو ادارے قانون اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں یا کسی پر جھوٹا مقدمہ قائم کرتے ہیں ان کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ اب نواز شریف کا مقدمہ لے لیں، ان پر الزام پانامہ میں لگا مگر سزا اقامہ پر ہوئی۔ اب جن لوگوں نے پانامہ کی بنیاد پر ان پر کرپشن کا الزام لگایا، ان کے خلاف نہ مقدمہ بنا نہ کوئی کارروائی ہوئی۔ اسی طرح گستاخ رسالت ﷺ کے الزامات کچھ لوگوں نے معصوم لوگوں پر لگائے مگر بہت کم ایسا ہوا کہ ایسا الزام لگانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوئی ہو۔ جھوٹا الزام لگانا پاکستان میں سب سے آسان کام ہے اور ادارے اس میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ ابھی چند دن پرانی بات ہے ایک معصوم خاندان کو سی ٹی ڈی نے دن دھاڑے گولیوں سے بھون دیا اور پھر ریاست سوری کرکے آگے بڑھ گئی مگر کئی زندگیاں اور خاندان برباد ہوگئے۔ اس ناانصافی کا ازالہ کرنے کے لیے بزدار صاحب نے چیک پہنچا دیے ہیں مگر کسی کو خاطر خواہ سزا نہیں ملی۔
یہ ناانصافیوں کی صرف چند مثالیں ہیں مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اکثر مقامات پر انصاف پاکستان میں پامال ہوتا ہے۔ بجلی کے بل سے لے کر ٹیکس دینے تک ہر جگہ اور ہر مرحلے پر ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ کیا کسی ایسے ملک میں جہاں اتنی ناانصافی ہو، کوئی بھی اچھی کمپنی آکر سرمایہ کاری کرے گی؟ ایسا انتہائی مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم مزید پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔
عمران خان نے اپنی پارٹی چلائی، ہمیشہ ناانصافی اور بدانتظامی سے چلائی اور ان کا یہی رویہ ملک چلانے میں بھی نمایاں ہے۔ ان کی اپنی کابینہ میں کوئی قتل بھی کردے تو وہ اسے ہر حد تک جا کر بچائیں گے، میں اس کی ایک درجن سے زیادہ مثالیں دے سکتا ہوں۔ ان کے جو سپورٹرز ہیں وہ اس بے انصافی کے نظام کو چلانے میں سب سے آگے ہیں۔ گورا صاحب تو چلا گیا مگر اپنے پیچھے براؤن صاحب چھوڑ گیا جو ہماری جان چھوڑنے کو تیار نہیں۔