جناب راجہ ریاض قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے امور ہیں جن میں انہیں حکومت وقت سے اختلاف ہے؟یہ سچ مچ میں قائد حزب اختلاف ہیں یا حکومت نے ’خالی خانہ پُر کریں‘ کے اصول پر انہیں ’وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف کے منصب پر فائز کر رکھا ہے؟
ابھی قومی اسمبلی کی ویب سائٹ دیکھی، وہاں قائد حزب اختلاف کا تعارف کراتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ راجہ ریاض کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ ابوالکلام آزاد یاد آ گئے،کہیں لکھا تھا: ’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سوچ رہا ہوں سیاست کے سینے میں دل بے شک نہ ہو، قائد حزب اختلاف تو ہونا ہی چاہیے۔‘
کیا یہ معزز ایوان اور جناب سپیکر رہنمائی فرما سکتے ہیں کہ راجہ ریاض کا تحریک انصاف سے کیا تعلق ہے؟ سب کو معلوم ہے کہ وہ تحریک انصاف سے راہیں جدا کر چکے۔ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ عدم اعتماد کے موقع پر وہ کس صف میں تھے۔
سندھ ہاؤس سے انہوں نے جو رجز پڑھے تھے وہ تحریک انصاف کی فصیلوں پر کھڑے ہو کر نہیں پڑھے تھے۔ یہ بات تو وہ عالم شوق میں سر عام کہہ چکے ہیں کہ اگلے الیکشن میں ان کی ترجیح ن لیگ کا ٹکٹ ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اب بھی تحریک انصاف سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹا تو یہ تعلق پھر کیا ہتھوڑے سے ٹوٹے گا تو معزز ایوان اسے ٹوٹا سمجھے گا؟
توڑنے سے مجھے مرحوم شیر افگن یاد آ گئے۔ یہ تحریک وکلا کے دن تھے۔ علی احمد کرد اور ڈاکٹر شیر افگن میرے ٹاک شو میں شریک تھے۔ دوران گفتگو علی احمد کرد نے غصے سے کہا کہ ’پرویز مشرف نے دو بار آئین توڑا ہے، کیا بات کرتے ہو۔‘ ڈاکٹر شیر افگن کہنے لگے: ’ہم نے کبھی بھی آئین نہیں توڑا اور میں یہ بات ثابت کر سکتا ہوں۔‘ ساتھ ہی انہوں نے خود ہی چیلنج دے دیا کہ کہ اگر وہ ثابت نہ کر سکے کہ آئین کسی نے نہیں توڑا تو وہ سیاست چھوڑ کر میانوالی چلے جائیں گے اور اگر انہوں نے ثابت کر دیا تو پھر علی احمد کرد تحریک وکلا چھوڑ کر کوئٹہ چلے جائیں گے۔
شرط کی جزئیات پر اتفاق ہوا تو میں نے عرض کی کہ ڈاکٹر صاحب اب بار ثبوت چونکہ آپ پر ہے تو ثابت کیجیے کہ آئین نہیں ٹوٹا۔ انہوں نے اطمینان سے میری بات سنی اور کہنے لگے: ’ابھی ثابت کرتا ہوں۔‘ ان کا بیگ ساتھ ہی پڑا تھا۔ انہوں نے بیگ اٹھایا، اس میں سے آئین پاکستان کا ایک نسخہ نکال کر میز پر رکھ دیا اور کہنے لگے: ’یہ ہے آئین، کہیں سے ٹوٹا ہوا ہے تو آپ ہی بتا دو۔ بالکل صحیح سلامت تمہارے سامنے رکھا ہے اور تم دونوں شور مچا رہے ہو ٹوٹ گیا ٹوٹ گیا۔ اب دیکھ کر تسلی کر لو کہاں سے ٹوٹا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں اور کرد صاحب چند لمحے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر میں نے کہا: ’ڈاکٹر صاحب یہ کون سی دلیل ہے۔ آپ کے خیال میں آئین کیا ہتھوڑے سے ٹوٹتا ہے؟‘ کہنے لگے: ’مجھے کیا پتہ کیسے ٹوٹتا ہے، میں نے کبھی توڑا ہو تو مجھے معلوم ہو۔‘
راجہ ریاض صاحب بھی شاید تحریک انصاف کے ساتھ اپنا تعلق ایسے ہی سنبھالے پھرتے ہوں گے اور جناب سپیکر کو بھی دکھا دیا گیا ہو گا کہ یہ دیکھیے یہ میرا انتخابی نشان ہے، کہیں سے ٹوٹا ہے تو بتا دیجیے۔ لیکن امر واقع یہ ہے کہ اس طرح کی دلیلوں سے آپ حریف کو لاجواب تو شاید کر سکتے ہوں لیکن قائل کسی کو نہیں کر سکتے۔
سیاست کے لیے اس کا اخلاقی وجود بہت ضروری ہے۔ سیاست اگر اس اخلاقی وجود سے بے نیاز ہو جائے تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں رہتا۔ وہ بے توقیر ہو جاتی ہے۔ یہی المیہ آج پاکستانی پارلیمان سے لپٹ چکا ہے۔خود اہل سیاست نے اس کی توقیر داؤ پر لگا دی ہے۔ جس باغ کو اس کی باڑ ہی کھانے لگے اس کا انجام نوشتہ دیوار ہوتا ہے۔
غیر سنجیدگی کا عالم دیکھیے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی سے استعفے دے چکی ہے لیکن پارلیمانی لاجز خالی نہیں کیے۔ معلوم نہیں تنخواہوں اور مراعات کا عالم کیا ہے۔ پھر قومی اسمبلی میں تو انہیں بیٹھنا گوارا نہیں لیکن پنجاب اسمبلی میں یہ جا بھی رہے ہیں اور وہاں کی کارروائی میں پوری قوت سے حصہ بھی لے رہے ہیں۔ کیا کوئی ہماری رہنمائی کر سکتا ہے کہ اس تضاد کی دلیل کیا ہے؟ وفاق میں اگر سازش ہوئی ہے، اس لیے آپ ایوان سے مستعفی ہوئے تو پنجاب میں کیا ہوا؟
پھر یہ کہ اگر وفاق میں استعفے دے ہی دیے ہیں تو قانونی ضابطہ پورا کرتے ہوئے سپیکر کے پاس جا کر ان کی تصدیق کیوں نہیں کرواتے؟ یہی عالم سپیکر صاحب کا ہے؟ استعفے ان کے پاس پڑے ہیں اور وہ جان بوجھ کر حیلوں سے معاملہ لٹکائے ہوئے ہیں ورنہ سپیکر اتنا بے بس نہیں ہوتا کہ ضابطے کے ایک عذر کا سہارا لے کر آدھے پاکستان کو پارلیمان میں نمائندگی سے محروم رکھے۔ سپیکر صاحب یا تو استعفے رد کر دیں یا پھر ایک ڈیڈ لائن دے دیں اور اس کے بعد استعفے منظور کر لیں تاکہ وہاں ضمنی انتخابات ہو جائیں۔
یہ سفاک بے نیازی کب تک کہ ایک دن کے اجلاس پر چار کروڑ کے قریب رقم پھونک دی جائے اور اس اجلاس میں حقیقی اپوزیشن موجود ہی نہ ہو اور یہ بھاری ذمہ داری راجہ ریاض صاحب کے نازک کندھوں پر ڈال دی جائے کہ اسے نبھائیے صاحب تاکہ اگلے الیکشن میں آپ کو ٹکٹ دیا جا سکے۔
قائد حزب اختلاف کے منصب کی ایک معنویت ہے۔ اس منصب پر کسی ایسے آدمی کو ہونا چاہیے جو سچ میں قومی معاملات میں حکومت سے مختلف سوچ رکھتا ہو اور اس کا اختلاف ایک متبادل فکر فراہم کرتا ہو۔ سوال وہی ہے کہ راجہ ریاض کو شہباز شریف سے کن معاملات پر اختلاف ہے؟ حالت یہ ہے کہ وزیراعظم پوچھ لیں: ’اج کیہ پکائیے؟‘ تو قائد حزب اختلاف نے شور مچا دینا ہے: ’بُجھ لیا میاں جی چھولیاں دی دال ہے۔‘
قومی سیاست کو یہ رویہ زیب نہیں دیتا۔ قومی سیاست کو باوقار ہونا چاہیے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔