پاکستان میں 20 برس سے قومی اسمبلی تو اپنی معیاد پوری کر رہی ہے لیکن اس دوران وزرائےاعظم کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اس عرصے کے دوران آٹھ وزرائےاعظم کو چار مختلف قومی اسمبلیوں نے چنا۔
ان 20 سالوں میں وزرائےاعظم تو تبدیل ہوئے لیکن نئے وزیر اعظم کا تعلق اسی جماعت سے رہا جس سیاسی جماعت کے وزیر اعظم کو گھر جانا پڑا۔
دو دہائیوں میں پہلی مرتبہ ایک قائد حزب اختلاف وزیراعظم کے منصب پر پہنچا ہے۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان اپنے عہدے سے ہٹ گئے ہیں اور ان کی جگہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نئے قائد ایوان یعنی وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ اسی طرح سابق وزیر اعظم عمران خان قومی اسمبلی اپوزیشن لیڈر بن جائیں گے۔
اسی سے ملتا جلتا منظر 2008 کی قومی اسمبلی میں بھی پیش آیا۔ جب مسلم لیگ ن اُس وقت کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے الگ ہوئی تو مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو قائد حزب اختلاف کا عہدہ چھوڑنا پڑا اور ان کی جگہ حکومت کی اتحادی جماعت اپوزیشن پارٹی بن گئی۔ مسلم لیگ ن نے اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر چوہدری نثار علی خان کو قائد حزب اختلاف مقرر کیا۔
2008 میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے ابتدائی دنوں میں اپوزیشن لیڈر کا منصب چھوڑنے والے چوہدری پرویز الٰہی قومی اسمبلی کے آخری دنوں میں وفاقی کابینہ میں شامل ہو گئے اور ملک کے ڈپٹی پرائم منسٹر یعنی نائب وزیر اعظم بنے۔
1973 کے آئین کے نفاذ کے 40 برس بعد چوہدری پرویز الٰہی پہلے سیاست دان تھے جن کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنایا گیا۔ اس سے پہلے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ نصرت بھٹو وفاقی کابینہ میں سینیئر وزیر بنی تھیں جب بےنظیر بھٹو نے 1988 میں وزیر اعظم کا عہدہ سنھبالا تھا۔
2013 کے عام انتخابات میں ایک ہی کابینہ کے دو رکن اپنے آبائی علاقے گجرات سے ایک دوسرے کے مدمقابل لڑے۔ اس انتخابی معرکہ میں ڈپٹی پرائم منسٹر نے وزیر دفاع چوہدری احمد مختار کو مات دے دی تھی۔
سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2002 میں قومی اسمبلی وجود میں آئی اور یہ ملکی تاریخ میں 30 برسوں میں پہلی اسمبلی تھی جس نے اپنی معیاد تو مکمل کی لیکن اس عرصے کے دوران تین وزرائےاعظم کو چنا۔
2002 کی قومی اسمبلی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دان میر ظفر اللہ خان جمالی کو وزیر اعظم چنا گیا۔ وہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں وزیر اعلی رہے اور بلوچستان سے پہلے سیاست دان تھے جو وزیر اعظم بنے لیکن اپنے عہدے کی معیاد پوری نہ کرسکے۔
میر ظفر اللہ خان جمالی کے مستعفی ہونے کے بعد مسلم لیگ قاف کے صدر چوہدری شجاعت حسین کو تین ماہ کی مختصر مدت کےلیے وزیر اعظم بنایا اور جیسے ہی سینیٹر شوکت عزیز پنجاب کے علاقے اٹک سے ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوئے تو انہیں چوہدری شجاعت کی جگہ نیا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
شوکت عزیز قومی اسمبلی کی معیاد مکمل ہونے تک وزیر اعظم رہے۔ پھر صدر نے نئے انتخابات کیلئے قومی اسمبلی تحلیل کر دی اور اسی طرح 30 برس کے بعد قومی اسمبلی نے معیاد تو مکمل کی لیکن کوئی وزیر اعظم بھی پانچ سال کی مدت پوری نہ کرسکا۔
پانچ برس کے بعد 2008 میں نئی قومی اسمبلی منتخب ہوئی تو اس نے بھی ماضی کی قومی اسمبلی کی طرح اپنی معیاد پوری تو لیکن اس مرتبہ بھی وزرائےاعظم اپنی پانچ برس کی آئینی مدت پوری نہیں کرسکے۔ اس مرتبہ ماضی کی نسبت قومی اسمبلی نے تین کی جگہ دو قائد ایوان چنے۔
انتخابی نتائج کی روشنی میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور یہ پانچویں بار تھی جب پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا۔ ملتان سے تعلق رکھنے سابق سپیکر قومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے۔
وہ دوسرے سپیکر تھے جو وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچے اور ان سے پہلے دو مرتبہ منتخب ہونے والے ملک معراج خالد نگران وزیر اعظم بنے تھے۔
یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم پر سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت پر عدالت کی برخاستگی تک سزا ہوئی اور پھر یہ سزا ان کے وزیر اعظم کے عہدے پر رہنے کیلئے نا اہلی میں تبدیل ہوگئی۔
پیلز پارٹی نے اپنے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی پر راجہ پرویز اشرف کو نیا وزیر اعظم بنایا جو نگران وزیر اعظم کے تقرر تک وزیر اعظم رہے۔
2013 کی قومی اسمبلی نے روایت کو قائم رکھتے ہوئے اپنی مدت تو پوری کی لیکن اسے 2008 کی قومی اسمبلی کی طرح دو وزرائےاعظم چنے پڑے۔
پہلے مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزرات عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا لیکن انہیں یوسف رضا گیلانی کی طرح کی طرح عدالتی فیصلے کی وجہ سے نا اہل ہونے پر عہدے سے الگ ہونا پڑا۔ ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا گیا جو قومی اسمبلی باقی مانند مدت پوری ہونے تک وزارت عظمیٰ پر قائم رہے۔
ماضی یعنی 1973 کے بعد سات قومی اسمبلیاں وجود میں آئیں لیکن ان میں کوئی بھی پانچ سال کی معیاد پوری نہ کرسکی۔ 1973 میں بننے والی قومی اسمبلی کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لگ بھگ تین برس بعد تحلیل کر کے انتخابات کروائے اور دوبارہ اقتدار میں آئے۔ دھاندلی کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں نے احتجاجی مہم چلائی اور اس کے نتیجے میں مارشل لا لگ گیا۔
ملک میں جمہوریت کی بحالی کے 1985 میں عام انتخابات پر قومی اسمبلی بنی لیکن آئین میں متعارف کروائی گئی بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم کے تحت فوجی صدر جنرل ضیا الحق نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بر طرف کرکے قومی اسمبلی تحلیل کر دی۔
ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بےنظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں لیکن جنرل ضیا الحق کے جانشین صدر مملکت غلام اسحاق خان نے دو برس کے بعد صدارتی اختیار 58 ٹو بی کے تحت بےنظیر بھٹو کی حکومت رخصت کیا اور قومی اسمبلی بھی توڑ دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر مملکت غلام اسحاق خان ملکی تاریخ میں واحد صدر ہیں جنہوں نے صدارتی اختیار کو دو مرتبہ استعمال کیا اور بےنظیر بھٹو کے بعد نواز شریف کی حکومت بھی ختم کر دی لیکن سپریم کورٹ نے نواز شریف اور ان کی حکومت کو بحال کر دیا۔
البتہ صدر مملکت اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان چپقلش کی وجہ سے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت پر ایک معاہدے کے تحت صدر اور وزیر اعظم دونوں کو ہی جانا پڑا۔
1993 میں بےنظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بنیں لیکن ان کے نامزد صدر مملکت سردار فاروق احمد خان نے اسی صدارتی اختیار پر بےنظیر بھٹو کی حکومت کو چلتا کیا۔
جب نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے آئینی ترمیم کے ذریعے صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار کو ہی ختم کر دیا لیکن اس کے باوجود ان کی حکومت اور قومی اسمبلی اپنی آئینی معیاد مکمل نہ کرسکیں اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے فوجی کارروائی کرکے نواز شریف کی حکومت اور قومی اسمبلی دونوں کو ختم کر دیا۔
اب پھر ایک وزیر اعظم یعنی عمران خان تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی وجہ سے اپنے عہدے کی معیاد مکمل ہونے سے پہلے ہی سبکدوش ہو گئے۔
وہ ملک کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہیں آئین میں دیے گئے طریقے عدم اعتماد کے ذریعے سے عہدے سے ہٹایا گیا ہے تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ موجودہ اسمبلی اپنی پانچ سال کی معیاد آئندہ سال مکمل کرتی یا نہیں۔