سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے تو ان کی صاحبزادی مریم نواز کی پریس کانفرنس میں جاری کی گئی خود سے منسوب ایک مبینہ ویڈیو کو ’جھوٹی، جعلی اور مفروضہ‘ قرار دے دیا ہے، تاہم اس ویڈیو اور وضاحتی بیان کی قانونی حیثیت کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
گذشتہ روز پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے پارٹی کی سینیئر ترین قیادت کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ایک ویڈیو دکھا کر الزام عائد کیا تھا کہ جج ارشد ملک نے ان کے والد کے خلاف دباؤ میں آ کر فیصلہ سنایا۔
تاہم، جج ارشد ملک نے آج اپنے بیان میں ’بالواسطہ یا بلاواسطہ‘ کسی قسم کے دباؤ سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قانون و شواہد کی بنیاد پر فیصلے کیے۔
سینیئر صحافی عامر عباسی کے مطابق اتوار کی صبح 11 بجے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے عدالتی عملے نے عدالتی کارروائیوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں سے رابطہ کیا اور اُنھیں ساڑھے گیارہ بجے عدالت پہنچنے کا کہا گیا۔ عدالت پہنچنے پر علم ہوا کہ جج ارشد ملک اپنے چیمبر میں موجود ہیں اور جلد ہی تحریری بیان جاری کرنے والے ہیں۔ ایک گھنٹہ انتظار کے بعد عدالتی عملے نے تحریری بیان کی کاپیاں میڈیا کو تقسیم کیں، جس پر رجسٹرار احتساب عدالت اور جج ارشد ملک کے دستخط موجود ہیں۔
جج ارشد ملک کے دفتر سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں انہوں نے مسلم لیگ ن کے کارکن ناصر بٹ سے شناسائی کی تائید کی لیکن دوسری جانب یہ بھی کہا کہ ’ن لیگ کی جانب سے فیصلہ حق میں کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور دھمکیاں دیں گئیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احتساب عدالت کے جج کا پریس ریلیز میں کہنا تھا کہ ’مریم نواز کی پریس کانفرنس کے ذریعے ان کے ادارے، ذات اور خاندان کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔‘
بیان کے مطابق: ’مریم صفدر صاحبہ کی پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی ویڈیوزنہ صرف حقائق کے برعکس ہیں بلکہ ان میں مختلف مواقع اور موضوعات پر کی جانے والی گفتگو توڑ مروڑ کر، سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی مذموم کوشش کی گئی‘۔
مزید کہا گیا: ’یہ پریس کانفرنس محض میرے فیصلوں کو متنازع بنانے اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے کی گئی‘۔
مبینہ ویڈیو میں جج کے ساتھ نظر آنے والے ن لیگ کے کارکن ناصر بٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ ناصر بٹ اور ان کے بھائی کو عرصہ دراز سے جانتے ہیں اور بے شمار مرتبہ مل چکے ہیں۔
جج ارشد ملک نے پریس ریلیز میں دعویٰ کیا کہ ’نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران مجھے ان کی طرف سے کئی بار نہ صرف رشوت کی پیش کش کی گئی بلکہ تعاون نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔‘
وزیراعظم عمران خان کی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان گذشتہ روز مبینہ ویڈیو کا فرانزک ٹیسٹ کرانے کا اعلان کر چکی ہیں۔
دوسری جانب ن لیگ کی رہنما مریم اورنگزیب نے پریس ریلیز جاری ہونے کے بعد جیو نیوز سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ آج کی پریس ریلیز درحقیقت مریم نواز کے موقف کی تصدیق ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پریس ریلیز بھی دباؤ کے تحت لکھوائی گئی۔’یہ پریس ریلیز کس نے اور کیوں لکھوائی میں نہیں جانتی‘۔
ساتھ ہی مریم اورنگزیب نے سوال اٹھایا کہ اگر جج ارشد ملک کو دھمکیاں یا رشوت کی پیش کش کی گئی تھی تو انہوں نے اعلیٰ عدلیہ میں رپورٹ کیوں نہیں کیا۔
ویڈیو اور وضاحتی بیان کی قانونی حیثیت؟
اب سوال یہ ہے کہ ن لیگ کی جانب سے جاری کی گئی مبینہ ویڈیو اور جج ارشد ملک کی وضاحت کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
اس سوال کی وضاحت کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے رابطہ کیا تو انہوں نے واضح طور بیان دینے سے ہچکچاتے ہوئے کہا کہ ’جب کیس میں جج کا متنازع وضاحتی بیان یا ویڈیو سامنے آ جائے تو اس میں مختلف راستے ہیں جو اختیار کیے جا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’ہائی کورٹ، احتساب عدالت کے فیصلے کو کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے۔ ازسرنو ٹرائل کا آپشن بھی موجود ہے، لیکن اب فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرنا ہے۔‘
سینیئر وکیل علی احمد کرد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ویڈیو اور وضاحتی بیان کی قانونی حیثیت یہ ہے کہ اس معاملے میں شک پیدا ہو چکا ہے اور پاکستانی قانون میں شک کا فائدہ ہمیشہ سے ہی ملزم کو ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سابق وزیراعظم نواز شریف کو اس سارے معاملے سے فائدہ ہی ہوگا کیونکہ اب ہائی کورٹ میں جو احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل ہے وہاں یہ معاملہ زیر بحث ہوگا اور احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم ہونے کی توقع ہے۔‘
جب اُن سے یہ سوال کیا گیا کہ جج ارشد ملک کو بطور جج ایک پارٹی کے کارکن سے ملنا چاہیے تھا کہ نہیں؟ علی احمد کرد نے جواب دیا کہ ’یہ بات اب غیر ضروری ہو گئی ہے کیونکہ جج ارشد ملک نے اپنے وضاحتی بیان میں خود واضح کر دیا ہے کہ اُن کی ناصر بٹ سے اہل علاقہ ہونے کی وجہ سے پرانی شناسائی ہے اور ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔‘
ساتھ ہی انہوں کہا کہ ’ضروری یہ ہے کہ یہ ویڈیو اب نواز شریف کے کیسز پر اثر انداز ہو گی۔‘
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر سے جب ویڈیو کی قانونی حیثیت سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’جب سے پانامہ کیس شروع ہوا ہے اس سارے معاملے میں اعلیٰ عدالت کا کردار شروع سے ہی متنازع رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’نواز شریف خود ججز سے مل کر اُس وقت کی حکومتوں کو کمزور کرتے رہے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ججوں کے ذریعے سیاستدانوں کو کنٹرول کیا جاتا رہا ہے۔‘
موجودہ صورت حال کے حوالے سے سابق اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ ’اب ن لیگ کو نئی درخواستیں دینی پڑیں گی کہ جج ارشد ملک کی ناصر بٹ سے ملاقات اور ویڈیو میں بات کو کیسے توڑا مروڑا گیا؟‘ انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں شہباز شریف کے ساتھ جسٹس ملک قیوم کی بات چیت منظر عام پر آئی تو بینظیر بھٹو کے خلاف دائر کیسز کے تمام فیصلوں کو سپریم کورٹ نے متنازع ہونے کی بنا پر کالعدم قرار دیتے ہوئے احتساب عدالت کو ازسرنو کیس سننے کا حکم دیا تھا، تو تاریخ کے تناظر میں یہاں بھی ایسا ہی لگتا ہے۔‘
کچھ سینیئر صحافیوں نے بھی اس سارے معاملے کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
انصار عباسی نے سوال اٹھایا کہ کیا جج ارشد ملک نے نگران جج کو خط لکھ کر خود کو ملنے والی دھمکیوں کے بارے میں آگاہ کیا تھا؟
بہت موزوں سوال۔ کیا احتساب عدالت کے جج صاحب نے نگران جج جسٹس اعجاز الحسن یا کسی اور اتھاڑتی کو لکھ کر یا زبانی اطلاع دی تھی کہ اُنہیں رشوت اور دھمکیاں مل رہی ہیں کہ نواز شریف کے حق میں فیصلہ کیا جائے؟؟؟ https://t.co/neh8GbjevD
— Ansar Abbasi (@AnsarAAbbasi) July 7, 2019
دوسری جانب ہم نیوز کے اینکر عادل شاہ زیب نے جج ارشد ملک کو معاملے کی تحقیقات ہونے تک زیر سماعت مقدمات سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔
جج ارشد ملک کے بقول ویڈیو حقائق کے برعکس ہے۔ انہیں صرف اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ ایک جج ہو کر آپ ایسی پارٹی کے عہدیدار سے مل کیوں رہے ہیں جسکے قائدین کے خلاف آپ نے فیصلے دیے؟ جب تک اس معاملے کی مکمل تحقیقات نہ ہو جائیں آپ کو اخلاقی طور پر زیر سماعت مقدمات سے دور ہو جانا چاہیے
— Adil Shahzeb (@adilshahzeb) July 7, 2019
عدالتی ذرائع کے مطابق جج احتساب عدالت ارشد ملک، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو ویڈیو الزامات پر تحقیقات کے لیے خط بھی لکھیں گے۔