بھارت کے جنوبی شہر حیدرآباد کی تہذیب کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو ہر کسی کا ذہن رومی ٹوپی اور شیروانی کی طرف ضرور جاتا ہے جو حیدرآباد کی ثقافت کی عکاس ہیں۔
حیدرآباد میں کبھی رومی ٹوپی کو عفت، سادگی اور شرافت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ رومی ٹوپی کو حیدرآباد میں نوابی ٹوپی بھی کہا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ حیدرآباد کے ساتویں نظام میر عثمان علی خان جو چھوٹے قد کے تھے، رومی ٹوپی پہنا کرتے تھے۔
تاریخی چار مینار سے متصل ’محمد کیپ مارٹ‘ ایک ایسی دکان ہے جہاں رومی ٹوپیاں دستیاب ہیں۔ یہ دکان سنہ 1902 میں قائم کی گئی تھی۔
یہ پورے تلنگانہ کی واحد ٹوپیوں کی دکان ہے جہاں نہ صرف حیدرآباد بلکہ پورے ملک سے شوقین ٹوپی خریدنے کے لیے آتے ہیں۔
دکان کے مالک محمد الیاس بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میرے دادا نے اس کی بنیاد 1902 میں رکھی تھی۔ اس وقت ایک چھوٹی سی دکان تھی جو چھ سو سکوائر فٹ پر مشتمل تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد الیاس بخاری کے بقول ان کے خاندان کو اس کام سے منسلک ہوئے تقریباً 113 سال ہوگئے ہیں۔ ’یہ ہمارے خاندان کی تیسری پیڑھی کو منتقل ہو چکی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کی دکان میں چند ایسی مخصوص قسم کی ٹوپیاں ہیں جو پورے بھارت میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ٹوپیوں میں بھی تبدیلیاں آتی گئیں۔ اس وقت یہاں پانچ ہزار اقسام کی ٹوپیاں ہیں۔ مشہور ٹوپیوں میں رومی ٹوپی، گول ٹوپی، کشمیری ٹوپی اور نہرو ٹوپی وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں 50 سے لے کر 60 ہزار تک کی ٹوپی بھی دستیاب ہے۔
الیاس بخاری کے مطابق مسلم لیڈر اور حیدرآباد کے رکن پارلیمان و کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی سمیت کئی قدآور سیاسی رہنما اپنی ٹوپیاں ہمیشہ یہاں سے ہی خریدتے ہیں۔
’نظام حکومت کے دور میں رومی ٹوپی یہاں کے رہنے والوں کے ڈریس کوڈ میں شامل تھی۔ اس وقت رومی ٹوپی تیار کرنے والے یہاں دستیاب تھے اور ہم آج بھی اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔‘
محمد الیاس بخاری کے مطابق محمد کیپ مارٹ کو ٹوپیوں کی وجہ سے عالمی معیار کا بنایا ہے۔ انہیں متعدد ایوارڈ بھی ملے ہیں، جس میں ڈک بیک ایوارڈ بھی شامل ہے۔