بھارت میں ایک طالبہ کو میڈیکل کے انٹری ٹیسٹ میں بیٹھنے سے قبل زیرجامہ اتارنے پر مجبور کیے جانے پر پولیس نے مقدمہ دائر کرلیا ہے۔
یہ واقعہ بھارت کی ریاست کیرالہ میں پیش آیا جب لڑکی کو مبینہ طور پر کہا گیا کہ اگر وہ انگیا (bra) نہیں اتارے گی تو اسے امتحانی مرکز میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کولام شہر میں پولیس سپرنٹنڈنٹ کو واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے لڑکی کے والد نے کہا کہ مار تھامس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی میں نیشنل ایلیجیبلٹی کم انٹرنس ٹیسٹ (نیٹ) میں شرکت کرنے والے ’بہت سے طلبہ‘ کو اپنا زیرجامہ اتارنے پر مجبور کیا گیا حالانکہ اصولوں کے مطابق اس کا حکم نہیں ہے۔
بھارت میں نیٹ میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے قابلیت جانچنے کا مستند امتحان ہے۔ امتحان کے لیے18 لاکھ طلبہ نے اندراج کرایا اور کل 497 شہروں کے 3500 مراکز میں امتحان لیا گیا۔ ملک سے باہر بھی 14 شہروں میں مراکز بنائے گئے تھے۔
لڑکی کے والد نے اپنی شکایت میں کہا: ’اس کمرے میں بہت سے تھے ۔۔۔ کچھ رو رہے تھے ۔۔۔ جب طلبہ نے اپنے زیرجامہ کو اتارنے سے انکار کیا تو ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا مستقبل اہم ہے یا زیرجامہ۔‘
اس واقعے سے غم و غصے کی ایک بہت بڑی لہر پیدا ہوئی اور ریاست کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر نے اس واقعے کو ’انتہائی افسوسناک‘ قرار دیا۔
امتحان کے انعقاد کی ذمہ دار نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ڈاکٹر آر بندو نے کہا: ’ایجنسی اور اس کے عملے [جس نے لڑکیوں کی تلاشی لی] کی جانب سے ایک سنگین کوتاہی ہوئی ہے۔‘
It is reprehensible that girl students who appeared for the NEET-UG exam in Kollam were made to remove their innerwear before entering the exam hall. It is learnt that this was done by people from the agency conducting the examination.
— Dr R Bindu (@rbinducpm) July 18, 2022
’یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ لڑکیوں کے بنیادی انسانی حقوق پر کوئی غور کیے بغیر ان کے بارے میں ایسا رویہ اختیار کیا گیا۔ ریاست اس واقعے پر مرکزی حکومت اور این ٹی اے کے ساتھ بات کرے گی۔‘
پولیس نے بھارتی پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت ’خواتین کی عزت کو ٹھیس پہنچانے‘ کے متعلق دفعات کے تحت بھی مقدمہ درج کیا ہے۔
ایک پولیس افسر نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا: ’ہم نے کسی شخص کو مبینہ ملزم کے طور پر نامزد نہیں کیا۔ ہمیں اس ایجنسی کی شناخت کرنی ہے جو امتحانی مرکز میں طلبہ کی تلاشی لینے کی ذمہ دار تھی اور پھر اس خاتون کو ڈھونڈنا ہے جس نے مبینہ طور پر لڑکی سے ان کا زیرجامہ اتارنے کو کہا تھا۔‘
امتحانی مرکز کے ایک ترجمان نے واضح کیا کہ ادارہ اس میں شامل نہیں تھا اور این ٹی اے کے عملے نے تلاشی لی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مار تھامس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک عہدیدار نے دی نیوز منٹ کو بتایا: ’این ٹی اے کی جانب سے بائیو میٹرک حاضری نوٹ کرنے اور تلاشی لینے کے لیے دو ایجنسیوں کی ذمہ داری لگائی گئی تھی۔
’ہمیں کوئی علم نہیں کہ اس بارے میں اصول کیا ہیں۔ ایجنسی کا عملہ یہ سب چیک کرتا ہے۔ بعض صورتوں میں جب بچے ہمارے پاس روتے ہوئے آئے اور شال پہننے کی اجازت مانگی تو ہم نے مداخلت کی اور انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے دی۔ ‘
این ٹی اے نے کہا کہ اسے اس معاملے میں کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
ادارے نے مزید کہا: ’ڈریس کوڈ کا مقصد امیدواروں کی تلاشی/بائیو میٹرک میں صنف، مذہبی، ثقافتی، علاقائی حساسیت کا دھیان رکھتے ہوئے امتحان کے انعقاد کے تقدس اور انصاف کو یقینی بنانا ہے۔‘
ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل ونیت جوشی نے مزید کہا کہ طلبہ کی تلاشی لینے کے ذمہ دار عملے کو ’حساس طریقے سے تلاشی لینے کے متعلق تربیتی سیشن سے گزرنا پڑتا ہے۔‘
دا پرنٹ کی رپورٹ کے مطابق این ٹی اے کے ڈریس کوڈ کے مطابق اگر امیدواروں نے ’پوری آستینوں والے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، بڑے بٹن یا بیجز کے ساتھ بروچ‘ لگائے ہیں تو بلوٹوتھ یا کیمرے جیسے چھوٹے مواصلاتی آلات کی تلاشی کے لیے اچھی طرح جانچ پڑتال کی جائے گی۔
© The Independent