اس سال کا موسمِ گرما پاکستان میں کوہ پیمائی کے حوالے سے شاندار رہا، جب دنیا بھر سے 1400 سے زائد مرد اور خواتین کوہ پیما یہاں آئے، جن میں 100 سے زیادہ نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
کوہ پیمائی کے شعبے سے منسلک نجی ادارے الپائن کلب آف پاكستان کے سیکریٹری کرار حیدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: 'میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ اب تک ایک سو سے زیادہ لوگوں نے کے ٹو سر کر لی ہے، اور یہ تعداد تقریبا 140 تک جانے کا امکان موجود ہے۔'
کرار حیدری کا کہنا تھا کہ اس سال پاکستان آنے والے کوہ پیماوں کی تعداد نے گذشتہ کئی سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا، جبکہ کے ٹو سر کرنے والے بھی ماضی کی نسبت بہت زیادہ رہے۔
پاكستان كی بلند ترین چوٹی كے ٹو (8611 میٹر یا 28251 فٹ) کو ماونٹ ایورسٹ (8849 میٹر) كے بعد دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
اس سیزن میں کے ٹو سر کرنے والوں میں 14 خواتین بھی شامل ہیں، جن میں سے ثمینہ بیگ اور نائلہ کیانی کا تعلق پاکستان سے ہے۔
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی سر کرنے کی کوششوں کے دوران ایک افغان کوہ پیما علی اکبر کی دل کا دورہ پڑنے کے باعث موت بھی واقع ہوئی۔
کے ٹو کو سر کرنے کے سلسلے میں اس سال کئی دوسرے ریکارڈ بھی بنے، جیسے پہلی مرتبہ پاکستانی، ایرانی اور عرب خواتین نے بھی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔
اسی طرح کم از کم پانچ کوہ پیماوں نے آکسیجن کے بغیر کے ٹو سر کی جبکہ تین خواتین سمیت چھ کوہ پیما پہلی مرتبہ کے ٹو پر چڑھنے میں کامیاب ہوئے۔
تائیوان کی 29 سالہ گریس سینگ کے ٹو سر کرنے والی دنیا کی کم عمر ترین خاتون بن گئیں، جبکہ پاکستان کے علی درانی تیسری مرتبہ اس پہاڑ پر چڑھنے میں کامیاب رہے۔
اس سیزن میں کے ٹو کی انتہائی اونچائی تک پہنچنے والوں میں سب سے بڑی تعداد 38 نیپالی شرپاز کی تھی۔
گذشتہ 30 سال سے کوہ پیمائی کے کاروبار سے منسلک پاکستان ایسوسی ایشن آف ٹوور آپریٹرز کے سابق جنرل سیکریٹری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کے ٹو کو کوہ پیمائی کا پہاڑ (mountain of mountaineering) کہا جاتا ہے، جسے سب سے زیادہ نیپالی شرپا ہی سر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیپالی شرپاز کی وجہ سے ہی کے ٹو کے سر کرنے کی اوسط میں اضافہ ہوا ہے۔
'اب بھی کے ٹو کو سر کرنے کی شرح 20 فیصد سے زیادہ نہیں رہتی، اکثر کوہ پیما بلند ترین مقام پر پہنچے بغیر ہی واپس آ جاتے ہیں۔'
کوہ پیما زیادہ کیوں آئے؟
کرار حیدری نے علاقے میں امن و امان کی صورت حال کی بہتری کوہ پیماوں کی تعداد میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ نائن الیون اور پھر خصوصا نانگا پربت میں غیر ملکی کوہ پیماوں کی ہلاکتوں کے سے بعد سے غیر ملکیوں کا آنا تقریبا ختم ہو گیا تھا۔
یاد رہے کہ جون 2013 میں نامعلوم افراد نے گلگت بلتستان میں بلندی پر واقع کوہ پیماوں کے کیمپ پر حملہ کر کے 11 غیر ملکی کوہ پیماوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
نیک نام کریم کا کہنا تھا کہ 2020 میں تو کوئی غیر ملکی کوہ پیما پاکستان نہیں آیا اور اس کی دوسری وجوہات کے علاوہ بڑی وجہ کویڈ 19 کی وبا کے باعث سفری پابندیاں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے واقعات سے پہلے اوسط 500 غیر ملکی کوہ پیما ہر سال پاکستان آتے تھے۔ '9/11 کے بعد مجھے نہیں یاد کہ کسی بھی سال یہ تعداد 400 بھی رہی ہو۔'
کرار حیدری کا کہنا تھا کہ اس سیزن میں غیر ملکی کوہ پیماوں کی تعداد میں اضافے کی دوسری وجہ آن لائن ویزے کی سہولت کا شروع کیا جانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب غیر ملکی کوہ پیما اپنے گھر میں بیٹھ کر ویزہ کے لیے آن لائن درخواست داخل کر سکتا ہے، جبکہ چند سال پہلے تک ایسی سہولت موجود نہیں تھی۔
نیک نام کریم نے بتایا کہ کے ٹو کے لیے زیادہ تر مہمات کا انتظام نیپالی کوہ پیما کمپنیاں کرتی ہیں، اور وہ اپنے کھلاڑیوں کے لیے وہی سے آن لائن ویزہ حاصل کر لیتے ہیں۔
پاكستانی كوہ پیما كیوں كم ہیں؟
دنیا كی دوسری بلند ترین چوٹی كے ٹو كے پاكستان میں ہونے كے باوجود یہاں كوہ پیما اور كوہ پیمائی میں مدد فراہم کرنے والے عملے کی کمی ہے۔
نیک نام کریم کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ اس کی وجہ پاکستان مین کوہ پیمائی سے متعلق تربیتی ادارے کی عدم موجودگی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے كہا کہ نیپال میں کوہ پیمائی کی تربیت ادراہ جاتی طور پر دی جاتی ہے، اور اسی وجہ سے وہاں کے شرپاز سرگرم نظر آتے ہیں۔
انہوں نے بتایا كہ پاكستان میں 300 سے زیادہ ایسی چوٹیاں ہیں جن پر كوہ پیمائی كی جاسکتی ہے اور کئی غیر ملکی انہیں ہر سال سر بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 6000 فٹ سے زیادہ بلدنی پر جانے والے کوہ پیمائی کے مدد گار کو شرپا کہا جاتا ہے، جبکہ اس سے کم بلندی پر کام کرنے والوں کو ہائی آلٹیچیوڈ پورٹر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
'ہمارے پاس پاکستان میں 10 سے 15 ایسے پورٹرز ہیں جو شرپا کے لیول کی تربیت رکھتے ہیں۔'
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ شرپاز کوہ پیماوں کے لیے رسیاں بچھانے کے علاوہ ان کا سامان اور آکسیجن سلینڈرز بھی اٹھا کر انتہائی بلندی تک لے کر جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: 'اگرچہ شرپاز محض کوہ پیما کے مددگار کی حیثیت سے چوٹی کی بلندی تک جاتے ہیں، لیکن چوٹی سر کرنے والوں میں ان کا نام بھی آتا ہے۔'
كے ٹو سر كرنے والے پاكستانی
اس سال موسم گرما میں جن پاکستانیوں نے کے ٹو سر کیا ان کے نام یہ ہیں: عنایت، عباس علی، علی نورانی، اکبر سدپارہ، ذاکر سدپارہ، اشرف سدپارہ، عابد سدپارہ، واجد اللہ، حسین علی، محمد علی امان، فدا علی، ثمینہ بیگ، سرباز خا، نائلہ کیانی، عید محمد، بلبل کریم، احمد بیگ، رضوان داد اور وقار علی۔