یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:
گذشتہ ماہ ناروے میں مقیم پاکستانیوں کا ایک کمیونٹی فیس بک پیج نظر سے گزرا۔ ایک پوسٹ تھی بلکہ پوسٹ کیا تھی سخت الفاظ میں کمیونٹی ارکان کو تنبیہ تھی کہ اپنی نجی محفلوں میں پٹواریوں کو بلانا بند کرو، اگر خاں صاحب کے سچے ماننے والے ہو تو پٹواریوں کا سوشل بائیکاٹ کرو۔
اب یقیناً اس کے جواب میں دوسری جماعت کے حامی بھی خاموش تو نہیں رہے ہوں گے، کچھ نہ کچھ تو غرائے ہوں گے۔
یہ مناظر ہم لندن کی سڑکوں پہ تو دیکھ رہے تھے، اب بیرون ملک رہنے والی پاکستانی کمیونٹی کی تقسیم ناروے تک بھی پہنچ چکی ہے۔
میاں نواز شریف کے بدنام زمانہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کے باہر انصافی ہائے ہائے کرتے ہیں تو ن لیگ کے حامی بھی شرم و حیا سے عاری زبان کا بے دریغ استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کئی بار شکوہ کر چکی ہیں کہ ان کے والد کے گھر کے باہر احتجاج سے وہ کس قدر پریشان ہیں۔
اور کچھ ہو نہ ہو بد زبانی اور کھینچا تانی میں ن لیگ اور تحریک انصاف کا ایکا نظر آتا ہے۔
پاکستان میں رہتے ہوئے تو یہ طے ہے کہ چار و ناچار سب ایک ہی آسمان تلے ایک ہی زمین پہ ساتھ رہ رہے ہیں، اس لیے یہ پہچان کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ہم پاکستانی ہیں۔ سینہ ٹھوک کے اپنا تعارف کروایا جا سکتا ہے کہ میں ن لیگی ہوں یا میں بلیڈ گرین ہوں، میں پیپلیا ہوں، میں خاں صاحب کا سپاہی ہوں یا پھر مجھے پیار سے مارخور کہتے ہیں۔ اس کی کوئی تُک بھی بنتی ہے۔
لیکن پاکستان سے باہر رہنے والی پاکستانی کمیونٹی کا تعارف اگر یہ رہ جائے کہ ہم میاں صاحب کے شیر ہیں تم کیا ہو؟ بتائیں کہ ہم جیسے کیا تعارف کروا سکتے ہیں؟ شیر، گیڈر، بھیڑیے، ٹائیگر یا پھر صرف پاکستانی؟
ایک وقت تھا کہ بعض صحافیوں کے روپ میں سیاسی گماشتے بلوچ مسنگ پرسنز کے لیے پاکستانی سفارت خانوں کے باہر احتجاج کرنے والوں کو بھارتی ایجنٹ قرار دیتے تھے، ان کے لیے عرض ہے کہ ہماری سیاسی تقسیم ہمیں یہاں تک لے آئی ہے کہ یہاں ناروے میں پاکستانی سیاسی رہنماؤں اور پاکستانی فوج کے جرنیلوں کے خلاف احتجاج ہوئے ہیں، نعرے لگے ہیں۔ ظاہر ہے تنگ آمد بجنگ آمد، جمہوری احتجاج ہر شہری کا حق ہے پھر چاہے وہ اوسلو کی سڑکوں پہ ہی کیوں نہ ہو۔
ہمارے تین تیرہ ہونے کا رونا جب فرانس میں مقیم پاکستانی صحافی یونس خان کے آگے کیا تو ہنس کر کہنے لگے، ’آپ پارٹی بازی پہ حیران ہیں یہاں تو ایک پارٹی کے اندر کئی گروہ ہیں۔ ایک پیپلز پارٹی کے تین گروپ، ایک تحریک انصاف کے جھنڈے تلے چار گروپ، ایک ن لیگ مگر اس کے بھی تین گروپ۔ ہر گروپ کہتا ہے پارٹی کے اصل نمائندے ہم ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہر گروپ اپنی سیاسی جماعت کی چوہدراہٹ جمانے کے لیے کوشش کرتا ہے کہ دوسرے گروہ سے کوئی نہ ملے، ایک کے فنکشن میں جائیں تو دوسرا ناراض۔ کشمیر کے لیے پروگرام ہوتا ہے تو کہتے فلاں کو بلایا تو ہم نہیں آئیں گے اور تو اور منہاج القران جیسی مذہبی تنظیم کے بھی دو گروپ ہیں۔ دونوں کا دعویٰ ہے ہم آفیشل ہیں۔‘
میں نے ابھی فیس بک پہ ایک پوسٹ ہی پڑھی ہے کہ ’کسی پٹواری کو نجی محفل میں نہ بلایا جائے،‘ یونس خان کے مطابق پیرس میں تو ایک گروہ دوسرے کے خلاف پولیس تک بلا چکا ہے۔ بات جب زبانی تلخ کلامی سے ہوتی ہوئی دست درازی تک آ جائے تو یہاں نوبت تک پہنچتی ہے۔
اپنی قوم کی تقسیم در تقسیم کی اور کتنی کہانیاں سناؤں؟ ٹوئٹر پہ چلے جائیں سب باہم دست و گریباں ہیں۔ کیا پڑھا لکھا کیا جاہل، کیا نوجوان کیا بوڑھا۔ ایک کی پگڑی ہے دوسرے کی جوتی۔
نجانے کون سے آسیب کا سایہ پڑا ہے کہ ملک کا ہر ادارہ تقسیم ہے۔ عدلیہ میں مخصوص بینچوں کی تشکیل اور ان کے پاس مخصوص کیسز کے لگنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مائی لارڈز کے درمیان محض تقسیم یا اختلاف نہیں، اب یہ بڑھتے بڑھتے چپقلش بن چکی ہے۔
پاکستانی بری فوج کی اعلیٰ قیادت کی صفوں میں جو بےچینی ہے وہ اندر سے لیک ہونے والی خبروں کی شکل میں باہر آتی رہتی ہیں، یہ بےقراری نہ ہوتی تو معمولی سُن گُن لینا بھی ممکن نہ تھا۔ یوں بھی ہے کہ عسکری قیادت کی تبدیلی سے قبل پسند اور ناپسند کی لکیر کھینچنا فطری ہے۔
رجیم چینج سے صرف اسلام آباد کے مکین ہی نہیں بدلے بلکہ ملک کی بیوروکریسی میں بھی اکھاڑ پچھاڑ، گروہ بندی، وفاداریاں تبدیل ہوئی ہیں۔ بیوروکریسی بھی تبدیلی تبادلوں اور تقسیم در تقسیم کے فارمولے کی وجہ سے اپنی فارم میں نہیں۔ اداروں اور انتظامیہ میں آپسی تال میل نہ ہونے کا شاخسانہ ہے کہ کئی شہر، اضلاع سیلاب سے نمٹ رہے ہیں مگر کوئی جامع پالیسی ہے، نہ ایمرجنسی سنبھالنے کے لیے کوآرڈینیشن۔
ایک قوم کے افراد مختلف سیاسی پسند ناپسند، متضاد سماجی نظریات اور متفرق مذہبی رجحانات رکھ سکتے ہیں لیکن جہاں اختلاف ایک دوسرے سے نفرت کی وجہ بنادی جائے، اجتماعی شناخت چھین کر افراد کے ہجوم کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بانٹ دیا جائے تو فیصلہ سازوں کو سمجھ جانا چاہیے کہ ان کے تقسیم در تقسیم کے سائنسی فارمولے کا نتیجہ نکل آیا ہے، صرف خسارہ ہی خسارہ ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جن سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔