اسلام آباد کے ایک کیفے کے باہر تقریباً شام کے چھ بجے تھے اور میں شفیق احمد کے انتظار میں تھا۔ 30 سالہ شفیق احمد احمدی ہیں اور میں ان سے ان کے مسائل اور مشکلات جاننے کے لیے ملنے آیا تھا۔
ملاقات سے قبل ہی شفیق نے ایک بات واضح کی کہ ملنا ہے تو کسی عوامی جگہ پر جہاں رش ہو یا پھر کسی کے مکان پر۔ اسی لیے میں نے کیفے کا انتخاب کیا اور کرسی بھی ذرا کونے میں لی تاکہ ہجوم میں ہوتے ہوئے بھی علیحدگی میں بیٹھ کر بات چیت ہو سکے۔
شفیق نے پہلے تو مصافحہ کیا اور پھر ہماری ٹیبل اور ارد گرد نظر ڈالی۔ اس کے بعد انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں وہ والی میز زیادہ بہتر ہے جو چار پانچ میزوں کے بیچ ہے۔‘
ہم اٹھ کر اس میز پر چلے گئے۔ سردی کے باوجود شفیق نے اپنی جیکٹ اتاری اور کرسی کے پیچھے لٹکا دی۔ میں خاموشی سے ان کے سیٹل ہونے کا انتظار کرتا رہا اور ساتھ ہی حیرت تھی کہ جیکٹ اتارنے کا مطلب؟
’میں نے اسلام آباد شہر میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہائش اس لیے اختیار کی کہ شاید دارالحکومت میں ہمیں ہمارے مذہبی عقائد کی بنا پر تنگ نظری کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن میں کتنا غلط ثابت ہوا۔‘
شفیق احمد تقریباً دس سال قبل ایبٹ آباد سے اسلام آباد منتقل ہوئے۔ اسلام آباد کے مضافات میں انھوں نے اپنی حیثیت کے مطابق ایک مکان کا حصہ کرائے پر لیا اور اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔
’ابتدائی طور پر یہ فیصلہ درست ہی ثابت ہوا، تعلیم کی تکمیل اور پھر ملازمت ملنے کے بعد میری زندگی سکون سے گزر رہی تھی۔‘
لیکن اس مکان میں ان کو ایک سال ہی گزرا کہ محلے والوں کو آگاہی ہو گئی کہ وہ احمدی ہیں۔ اس آگاہی کے بعد ان کے لیے محلے میں رہنا مشکل ہوتا گیا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں 70 کی دہائی میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔
شفیق کے مطابق پھر ایک صبح ایسا واقعہ ہوا کہ اس علاقے میں رہنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں ایک رات نوکری سے دیر سے آیا اور مجھے گھر لوٹتے ہوئے تقریباً 12 بج گئے۔ صبح فجر کے وقت میرے والد اٹھے اور سیر کے لیے جب وہ باہر نکلے تو گیٹ تھوڑا پھنس کر کھلا۔ جب انھوں نے گیٹ کو بغور دیکھا تو اس پر کئی سٹیکرز چسپاں تھے جن پر احمدی مخالف تحریر درج تھی۔‘
’ان سٹیکرز پر احمدیوں کے قتل کی دھمکیوں کے علاوہ بازار میں ہم سے لین دین پر پابندی اور مکان خالی کرنے کے مطالبات درج تھے۔ ہم نے وہ سٹیکرز تو اتار دیے مگر گھر کی فضا عجیب سی سہمی ہوئی ہوگئی۔‘
کچھ دوستوں کے مشورے سے مقامی تھانے میں رپورٹ درج کروانے کی کوشش کی تو یہ کہہ کر رپورٹ لکھنے سے انکار کر دیا گیا کہ ’بھائی جان آپ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ کیوں اپنی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔‘
شفیق نے بتایا کہ ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ وہ اس گھر سے کوچ کریں۔ جلدی جلدی میں گھر ڈھونڈا اور مکان تبدیل کر لیا۔
’پہلے مکان میں ہم جب منتقل ہوئے تو میرے گھر کی خواتین برقع پہنا کرتا تھیں اور احمدی برقع عام برقعوں سے مختلف ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسی برقعے کی وجہ سے محلے والوں کو ہمارے مذہبی عقائد کے بارے میں علم ہوا۔ اس لیے دوسرے مکان میں جب منتقل ہوئے تو خواتین کو برقع پہننے سے منع کر دیا۔‘
ابھی وہ بات کر ہی رہے تھے کہ تقریباً شام سات بجے ان کو فون آیا۔ ’جی ابو میں دفتر سے اس کیفے پر آ گیا ایک دوست سے ملنے۔ میں تقریباً ساڑھے آٹھ بجے گھر پہنچ جاؤں گا۔‘
شفیق نے فون بند کیا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ 30 سال کی عمر میں آپ کے والدین نے کتنی بار شام سات بجے فون کرنے شروع کر دیے تھے کہ کہاں پر ہو۔ ’ہماری سکیورٹی کے حوالے سے ہمارے والدین اتنے پریشان ہیں۔‘
پھر انھوں نے کیفے میں بیٹھے لوگوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا ’ان لوگوں سے پوچھیں کتنوں کے والدین کے فون آئے ہیں کہ بیٹا حفاظت سے ہو۔ یہ صرف پھر احمدیوں کے ساتھ ہی ہے۔‘
انھوں نے کافی پیتے ہوئے اپنے مکان اور محلے والوں کی کہانی دوبارہ شروع کی اور کہا کہ کچھ ہی عرصے بعد وہی ہوا اور اس محلے میں بھی ہمارے مذہبی عقائد کے حوالے سے آگاہی ہوتے ہی محلے والوں کا رویہ تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ ’یہ سلسلہ محلے کی دکانوں پر ہونے والی گفتگو تک آن پہنچا اور ہمارے ساتھ قطع تعلق کی باتیں ہونے لگیں۔‘
اور پھر ’ہم نے ایک بار پھر سامان باندھا اور نئی منزل کی جانب چل پڑے۔ یہاں اگرچہ حالات کچھ بہتر تھے کیونکہ یہ مکان سنگل تھا اور مالک مکان ساتھ نہیں تھا مگر زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور تاریخ دہرائی جانے لگی۔‘
لیکن اس بار بات اتنی آگے نکل گئی کہ دکانداروں نے اشیا بیچنے سے یہ کہہ کر انکار کرنا شروع کر دیا کہ ’سامان نہیں ہے‘۔
’انڈے، ڈبل روٹی وغیرہ سامنے پڑے ہوتے تھے لیکن دکاندار کہہ دیتے تھے کہ نہیں ہیں۔ میں نے حالات دیکھتے ہوئے روزمرہ کی اشیا نوکری سے واپسی پر خریدنا شروع کر دیں۔‘
بات چیت کے دوران شفیق کبھی قلم تو کبھی عینک صاف کرنے کا کپڑا تو کبھی گلے کی دوائی نکالنے کے لیے تھوڑا سا مڑ کر اپنی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتے۔ دو تین بار جب انھوں نے ایسا کیا تو مجھے سمجھ آئی کہ ان کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں بلکہ وہ اپنے پیچھے دیکھ کر مطمئن ہونا چاہتے ہیں کہ کوئی آ تو نہیں رہا۔
شفیق نے کہا ’لیکن آخر کب تک میں اسلام آباد شہر سے چیزیں خرید کر لاتا۔ اگر ایک جھاڑو بھی چاہیے ہوتا تھا تو ہمیں اپنے محلے سے دو محلے چھوڑ کر دکان پر جانا پڑتا تھا۔‘
میرے عزیز و اقارب نے مشورہ دیا کہ اسلام آباد شہر میں منتقل ہو جاؤ کیونکہ وہاں پر اس قسم کے مسئلے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ’اپنے بوڑھے والدین، اہلیہ اور بیٹی کی حفاظت اور ذہنی سکون کے لیے آخر اسلام آباد شہر کے اندر ایک مکان دیکھا اور منتقل ہوگئے۔
’کیا کھائیں اور کیا کرایہ دیں۔ تنخواہ میں سے زیادہ تر حصہ کرائے اور بلوں میں نکل جاتا ہے۔ لیکن یہ سوچ کر شکر کرتا ہوں کہ کم از کم محلے والے تو تنگ نہیں کرتے اور محلے کی دکان والے سامان دے دیتے ہیں۔‘
شفیق احمد نے کہا کہ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ’لیکن ہمدانی صاحب اگر آپ کے مکان پر قتل اور بائیکاٹ کے سٹیکرز لگا دیے جائیں تو آپ کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی؟ کیا آپ کام کر سکیں گے؟ کیا آپ کا ذہن کسی اور کام میں لگ سکے گا؟ اگر آپ دکان پر جائیں اور انڈے ڈبل روٹی سامنے پڑے ہیں اور دکاندار آپ کو کہیں نہیں ہے تو آپ کی کیا کیفیت ہو گی؟ آپ کو غصہ آئے گا جیسے کہ مجھ کو آتا تھا۔ لیکن آپ اس کے ساتھ لڑ جھگڑ لیں گے لیکن میں ایک بطور احمدی لڑنے کی جرات نہیں کر سکتا محض اس ڈر سے کہ انڈے ڈبل روٹی کے پیچھے جان نہ جائے۔‘
یہ جاننے کے لیے کہ کیا احمدیوں کے لیے مکان کرائے پر لینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ شفیق نے بیان کیا میں بھی پراپرٹی ڈیلرز کے پاس گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ میرے ایک احمدی دوست کو مکان کرائے پر چاہیے۔
ایک پراپرٹی ڈیلر چوہدری کرامت نے کہا: ’اگر آپ کا دوست اسلام آباد کے متوسط یا نچلے درجے کے متوسط علاقے میں مکان چاہتے ہیں تو وہ اپنا عقیدہ مالک مکان کو نہ بتائیں اور ان کو مکان حاصل کرنے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں آئے گا۔ لیکن اگر آپ کا دوست اپنا عقیدہ بتانا چاہتا ہے تو پھر ان کو مکان اسلام آباد کے پوش علاقے میں دیکھنا چاہیے۔‘
دکانداروں کا موقف
بات صرف شفیق احمد اور دیگر احمدیوں کو عام دکان سے سامان نہ ملنے تک ہی محدود نہیں رہی ہے۔ اب تو کچھ عرصے سے بات اس حد تک نکل چکی ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر کے وسط میں واقع شہر کے بڑے کاروباری پلازہ حفیظ سینٹر میں تقریباً تمام ہی دکانوں پر احمدی مخالف سٹیکرز چسپاں ہیں۔
حفیظ سینٹر ہی میں 2015 میں پولیس نے کارروائی کی تھی اور احمدیوں کے خلاف چسپاں سٹیکرز نہ صرف اتارے تھے بلکہ ایک دکاندار کو نفرت انگیز مواد لگانے کے الزام میں گرفتار بھی کیا۔
یاد رہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نفرت انگیز مواد کی تشہیر جرم ہے۔ لیکن اس بڑے الیکٹرانک مارکیٹ کے پلازے میں ایک بار پھر سے سٹیکر نمایاں طور پر چسپاں ہیں۔
تقریباً ہر دکان کے باہر ایک ہی سٹیکر چسپاں ہے جس پر لکھا ہے ’قادیانیوں کا داخلہ اور کاروبار ممنوع ہے‘۔
’احمدیوں کا داخلہ اور کاروبار ممنوع‘ کے سٹیکر کے بارے میں جاننے کے لیے ایک ذیشان نامی دکاندار سے بات کی تو ان کا کہنا تھا ’اس سٹیکر کو دیکھ کر کبھی بحث نہیں ہوئی۔ جو دیکھتا ہے آگے چلا جاتا ہے۔ کسی نے آ کر یہ نہیں کہا کہ یہ سٹیکر کیوں لگایا ہوا ہے۔‘
ان سے جب پوچھا کہ سٹیکر کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ احمدیوں کے علاوہ بھی وہ لوگ جو احمدیوں کے ساتھ ایسے سلوک کے مخالف ہوں وہ بھی دکان میں نہ آئیں اور کاروبار میں کمی ہو جائے تو انھوں نے کہا ’رزق دینے والا اللہ کی ذات ہے۔‘
بہت سارے دکانداروں سے جب یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ آیا وہ یہ سٹیکر خود چھپواتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ نہیں کچھ لوگ آتے ہیں اور دے جاتے ہیں اور وہ اپنی خوشی سے یہ سٹیکر دکان کے باہر دروازوں یا کھڑکیوں پر نمایاں طور پر چسپاں کرتے ہیں۔
حفیظ سینٹر ہی میں ایک دکاندار شیخ مدثر نواز کا کہنا ہے کہ کئی بار دکان پر لوگ آئے ہیں اور سٹیکر دیکھ کر پوچھتے ہیں کہ سٹیکر کیوں لگایا ہوا ہے۔ ’ہم کہتے ہیں کہ قادیانیوں کے ساتھ کاروبار نہیں کرنا تو انھوں نے کہا کہ وہ قادیانی ہیں تو ہم نے صاف کہہ دیا فون فروخت نہیں کرنا۔‘
جب ان سے کاروبار میں کمی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے ایک واقعہ سنایا۔ ’دو لڑکے آئے تھے فون خریدنے تو جو فون ان کو پسند تھے وہ کام ہی نہ کریں۔ جب وہ لڑکے چلے گئے تو ساتھ والی دکان کا لڑکا میرے پاس آیا اور کہا کہ یہ دو لڑکے تو وہ ہیں جو درخت کے نیچے سے گزر جائیں تو اس کی جھاڑ خشک ہو جاتی ہے کیونکہ یہ احمدی تھے۔ اس لڑکے نے مجھ سے کہا کہ وہی فون دوبارہ ٹرائی کرو اور جب میں نے کیے تو فون چل پڑے۔ اب آپ ہی مجھے بتائیں کہ میں ان کے ساتھ کاروبار کیوں کروں؟‘
احمدی برادری کی جانب سے جاری کی گئی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1984 میں احمدی مخالف قوانین کے اطلاق کے بعد سے دسمبر سنہ 2017 تک 264 احمدیوں کو ان کے عقیدے کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ اس دوران احمدیوں پر 379 حملے ہوئے جبکہ 27 عبادت گاہوں کو تباہ اور 33 کو بند کیا گیا۔
احمدی برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔ فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے بعد آنے والی سویلین حکومتیں احمدیوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہیں۔
عمران خان کی حکومت جو ’نیا پاکستان‘ کے نعرے کے ساتھ حکومت میں آئی نہ صرف احمدی برادری کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے مذہبی جماعتوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
عمران خان نے معاشی مشاورتی کونسل میں ماہر معاشیات عاطف میاں کو شامل کیا۔ ان کی شمولیت پر عوام کی نمائندگی کا نعرہ لگانے والی مسلم لیگ نواز نے سینیٹ میں میاں عاطف کے احمدی ہونے اور کونسل میں شامل کرنے کے خلاف تحریک استحقاق جمع کرائی۔ ابتدائی طور پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے عاطف میاں کا دفاع کیا کہ ’پاکستان جتنا اکثریت کا ہے اتنا ہی اقلیتوں کا ہے‘۔ تاہم جلد ہی اس نے گھٹنے ٹیک دیے اور میاں عاطف کو کونسل سے مستعفی ہونے کا کہا۔
احمدیوں کے لیے پاکستان میں جگہ تنگ ہوتی جائے گی اگر ریاست کا ایک ستون انتظامیہ ان کے ان حقوق کے لیے کھڑا نہیں ہوتا جو اس ملک کے آئین میں درج ہیں۔ اور دوسرا ستون مقننہ مذہبی جماعتوں کے دباؤ میں گھٹنے ٹیک دے تو وہ بھی اسی مہم کا حصہ بن جاتا ہے جو احمدیوں کے لیے زمین تنگ کر رہی ہے۔
© The Independent