یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
Listen to "Kashmir - Nayeema Ahmad Mahjoor" on Spreaker.’اس خطے میں ہر بات، ہر مظاہرہ یا ہر مطالبہ حصول آزادی پر منتج ہوتا تھا مگر پانچ اگست 2019 کے بعد آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کی بحالی بیشتر لوگوں کے لیے توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ حکومت حصول آزادی کے مطالبے کو خودمختاری کو بحال کرنے کے بیانیے میں تبدیل کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو چکی ہے۔‘
یہ خیالات ہیں کشمیر کے سوشل ایکٹوسٹ فیاض ڈار کے (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) جو تحریک آزادی کو چھوڑ کر مین سٹریم سیاست میں شامل ہو گئے تھے اور اب انڈین حکومت کے اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف نوجوانوں کو متحرک کرنے لگے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کشمیر میں حالات بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ معمولی چنگاری بھیانک آگ بن جاتی ہے جس کے مناظر 2008، 2010 اور 2016 میں دیکھے گئے۔ حکومت کی بندشوں اور پابندیوں کے باوجود آزادی کا بیانیہ مکمل طور پر ختم کرنا انتہائی مشکل ہے۔
بی جے پی کی حکومت نے آہنی پالیسیاں بنا کر آزادی پسند اور بھارت نوازوں کا منہ بند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور عوام کی جبری خاموشی کو اکثر ’نارمیلسی‘ سے تعبیر کیا۔
آزادی پسندوں کی خاموشی کے مقابلے میں آج کل بھارت نوازوں کی بلند آوازیں زیادہ سُنائی دے رہیں ہیں جن میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، سجاد لون اور محبوبہ مفتی شامل ہیں جو اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے تین سال کو کشمیر کی بربادی کے سال قرار دے رہے ہیں۔
انڈیا کے صدارتی امیدوار یشونت سنہا نے کشمیر کے حالیہ دورے کے دوران مقامی رہنماؤں کے ان خدشات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کی پالیسیوں نے جموں و کشمیر اور مرکز کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا کر دی ہے جس کو پاٹنے میں سالہا سال درکار ہوں گے۔
خود بی جے پی کو بھی اندرونی طور پر اس کا خوب ادراک ہے کہ اُس کا تین سال کا تجربہ جموں و کشمیر میں ناکام رہا ہے مگر وہ اصل نکتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے دوسرے حربے آزمانے میں ماہر ہے۔
پاکستان کی مسلسل خاموشی سے بی جے پی کی پالیسیوں کی ایک طرف سے تائید ہوتی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے ایک سینیئر رہنما بشیر احمد نائیک کہتے ہیں کہ ’بی جے پی نے 70 سال پہلے کا مہاراجہ دور واپس کشمیر پر مسلط کر دیا ہے، انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس کو غیر کشمیری اور غیر مسلموں کے حوالے کر دیا، مقامی عوام کی کہیں پر کوئی نمائندگی نہیں ہے، وزیر داخلہ کے کہنے پر خفیہ اداروں نے سیاست دانوں سمیت عام شہری کی زندگی عذاب بنا دی ہے۔ گھر کی چوری کر کے اگر چور یہ کہہ دے کہ مالک مکان خوش ہے، تو خود ہی اندازہ لگائیے کہ جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے کس طرح جمہوریت پر شب خون مارنے پر تُلے ہوئے ہیں۔‘
اندرونی خودمختاری سے متعلق قوانین کو ویسے پہلے ہی کھوکھلا کر کے رکھ دیا گیا تھا جس کی ابتدا نو اگست 1953 میں اس وقت کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کی گرفتاری کے ساتھ ہوئی تھی، لیکن پھر بھی شہریت رکھنے والے عوام کے پاس جائیداد، ملازمت، آئین اور اپنا پرچم رکھنے کے حقوق حاصل تھے، انڈیا کو اس پورے خطے کی سرحدیں تبدیل کرنے کا حق نہیں تھا۔
لیکن انڈیا کی پارلیمان میں آئین کا مذاق اڑا کر ڈیڑھ کروڑ عوام کو نہ صرف اپنے حقوق سے محروم کردیا گیا بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے دو حصے کرکے یونین ٹریٹریز میں تبدیل بھی کر دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بی جے پی نے اندرونی خودمختاری ہٹانے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی تھی کہ خطے میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، جس کے جواب میں سکھ برادری سے وابستہ انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن کشمیری سکھ انگدھ سنگھ کہتے ہیں کہ ’جموں و کشمیر کے ساتھ آج تک ہر حکومت نے سیاسی تجربے کیے، کشمیری پنڈتوں یا سکھوں کے تحفظ کے نام پر بی جے پی کا یہ تجربہ بھی ناکام رہا ہے، پہلے مسلمانوں کو گھروں میں قید یا گرفتار کیا جاتا تھا اب پنڈتوں کو گھروں سے باہر نہیں آنے دیا جا رہا ہے، جو راہول پنڈت کی ہلاکت کے بعد سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر وادی سے نکلنا چاہتے ہیں بلکہ مسلمان یہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ پوری وادی کو جیل بنا کر نارمیلسی کہنا ایک بھونڈا مذاق ہے۔‘
گذشتہ تین برسوں میں جموں و کشمیر میں پانچ لاکھ سے زائد افراد اپنے روزگار سے محروم ہو چکے ہیں، تاجر برادری کا 40 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے، 200 سے زائد وہ مرکزی قوانین لاگو کر دیے گئے ہیں جن کی وجہ سے لوگ اپنی شہریت، ملازمت، جائیداد اور زرعی زمینوں سے محروم کیے جا رہے ہیں۔
بقول ایک سرکردہ تاجر مزمل بچہ ’اندرونی خودمختاری کو ختم کرنے کے بعد افسرشاہی مضبوط ہوچکی ہے، عوام بے اختیار، طلبہ انڈیا کی دوسری ریاستوں سے تعلیم چھوڑ کر واپس آگئے ہیں، کسی بھی بیرونی سرمایہ کار نے ابھی تک کشمیر میں کوئی صنعت قائم نہیں کی ہے جس کی اُمید بی جے پی نے دلائی تھی۔‘
برلن میں جنوب ایشیائی امور کے استاد رابرٹ برائن کہتے ہیں کہ ’یہ صحیح ہے کہ انڈین حکومت کے تین سال پہلے اندرونی خودمختاری کو ہٹانے کے فیصلے پر عالمی برادری نے خاموشی اختیار کی مگر یہ بھی صحیح ہے کہ کشمیر سمیت انڈیا کے دوسرے علاقوں میں موجودہ بگڑتی صورت حال پر کافی تشویش پائی جاتی ہے اور پس پردہ انڈیا کے ساتھ اس تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ وقتی طور پر آزادی کی آوازیں خاموش کر دی گئیں ہیں مگر بعض عالمی سیاسی حلقوں میں یہ سوچ گہری ہے کہ اگر بی جے پی اپنی کشمیر پالیسی میں تبدیلی نہیں لاتی ہے تو انڈیا نواز اکثر رہنما مین سٹریم کو چھوڑ کر آزادی کیمپ میں داخل ہو جائیں گے جس کی بنیاد سید علی شاہ گیلانی نے پہلے ہی ڈالی تھی۔‘
جموں میں، جو بی جے پی کا مضبوط گڑھ رہا ہے، بیشتر تاجر پریشان ہیں کہ آرٹیکل 370 کے ہٹنے کے بعد انڈیا کے تاجر جموں میں سرمایہ لگا رہے ہیں جس کا اثر اُن کی تجارت پر پڑ رہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق گجرات کی دودھ تیار کرنے والے فیکٹری امول نے جموں میں مقامی فوڈ انڈسٹری کو کافی زک پہنچائی ہے۔
تین سال کی شدید بندشوں کے بعد بھی کشمیر وہیں پر رکا ہوا ہے، البتہ انڈیا کافی بدل چکا ہے جہاں مختلف ریاستوں سے اندرونی خودمختاری کے حصول کے لیے آوازیں ابھرنے لگی ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔