کراچی کی مقامی عدالت نے جمعرات کو نجی نیوز چینل اے آر وائی کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کو فوجداری مقدمے سے بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
عماد یوسف کو اے آر وائی نیوز پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کے ملکی اداروں کے خلاف ایک مبینہ بیان نشر کرنے کے بعد نو اور 10 اگست کی درمیانی شب کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقعے ان کے گھر سے گرفتار کرکے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 63 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
جمعرات کی صبح عماد یوسف کو بکتربند گاڑی میں ہتھکڑیاں پہناکر کراچی کی ملیر کورٹ میں پیش کیا گیا۔
اے آر وائی کے مطابق عماد یوسف کو پیشی کے موقع پر پولیس کی جانب سے ان کے وکیل اور اہل خانہ کو ملنے نہیں دیا گیا، تاہم ان کے وکیل نعیم قریشی کے احتجاج پر انہیں عماد یوسف سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سماعت کے دوران مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت سے عماد یوسف کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جبکہ عماد یوسف کے وکیل نعیم قریشی نے عدالت سے کہا کہ ’عماد یوسف کا نام مقدمے میں شامل کرنا بدنیتی ہے اور ان کا اس پورے معاملے میں کوئی کردار نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی متن کے ساتھ اسلام آباد میں بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایک واقعے کی ایک سے زیادہ ایف آئی آر نہیں ہوسکتی۔‘
نعیم قریشی ایڈووکیٹ نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 63 کے تحت مقدمہ خارج کرنے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے ان کی استدعا منظور کرتے ہوئے عماد یوسف کا نام مقدمے سے خارج کرنے اور انھیں ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا۔
عماد یوسف کی گرفتاری کب اور کیوں ہوئی؟
عماد یوسف کی گرفتاری آٹھ اگست کو اے آر وائی نیوز پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کے ملکی اداروں کے خلاف ایک مبینہ بیان نشر کرنے کے بعد عمل میں آئی تھی۔
شہباز گل کے اس بیان کے بعد نہ صرف پیمرا نے اے آر وائی کی نشریات بند کرنے کا اعلان کیا تھا بلکہ پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے خلاف بھی اسلام آباد میں بغاوت کا مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ شہباز گل کے خلاف ایسا ہی ایک مقدمہ کراچی میں بھی سرکار کی مدعیت میں درج ہوا۔
اسلام آباد میں درج مقدمے کے سلسلے میں شہباز گل کو 10 اگست کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے انہیں دو روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔