جب میں کالم لکھنے کے لیے موضوع کا چناؤ کرتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ہلکا پھلکا سا موضوع ہو جس پر طبع آزمائی کی جائے۔
سنجیدہ، گمبھیر اور فلسفیانہ موضوعات سے یہاں پرہیز کرتا ہوں، یہ پرہیز میں نے خود اپنے آپ پر لاگو کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ قارئین کو کالم کا ایک مختلف ذائقہ ملنا چاہیے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خود مجھے بھی منہ کا ذائقہ بدلنا چاہیے۔
مثلاً آج جب میں نے کالم لکھنے کے لیے لیپ ٹاپ کھولا تو ارادہ تھا کہ شعیب اختر کی اس ٹویٹ پر کالم لکھوں گا جس میں انہوں نے ہسپتال کے کمرے سےلکھا تھا کہ ’میں آپریشن کے لیے جا رہا ہوں، دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔‘
بندہ پوچھے ایسا بھی کیا attention seeking behavior، یعنی آپریشن تھیٹر میں جاتے ہوئے بھی ری ٹویٹس اور لائکس چاہییں، لیکن پھر میں نے سوچا کہ یار لوگ اعتراض کریں گے کہ اگر ایک شریف آدمی دعاؤں کا طالب ہے تو مجھے کیا مسئلہ ہے، اس لیے ارادہ بدل دیا۔ ویسے بھی شعیب اختر نے یہ ٹویٹ کافی عرصہ پہلے کی تھی، اب تک تو وہ ہسپتال سے گھر بھی آ گئے ہوں گے اور جتنی ان کی رفتار ہے، ہوسکتا ہے ساتھ میں کوئی نومولود بچہ بھی گود میں لے آئے ہوں۔
اس کے بعد سوچا کہ 17 اگست کو جنرل ضیا الحق کی برسی ہوتی ہے، کیوں نہ مرحوم کی ذات با برکات پر ایک کالم باندھا جائے۔ اخبارات پر نظر دوڑائی تو ایک دو کالم مرحوم کی یاد میں نظر سے گزرے جن میں ان کے اوصاف حمیدہ، رشیدہ و سعیدہ بیان کیے گئے تھے اور بتایا گیا تھا کہ کیسے اس مرد مجاہد نے افغانستان میں روسی فوج کے دانت کھٹے کیے۔
لیکن پھر میں نے یہ کالم لکھنے کا ارادہ بھی ترک کر دیا کیونکہ کسی شخص کی برسی پر فکاہیہ تحریر لکھنا مجھے کچھ نا مناسب بات لگی۔ ویسے یہ بات میں نے اپنے ہی اصول کے خلاف کی ہے، میرا نظریہ ہے کہ مرے ہوئے شخص کی خرابیاں محض اس وجہ سے بیان نہ کرنا کہ وہ فوت ہوچکا ہے،کوئی منطقی بات نہیں، خاص طور پر اس صورت میں جب وہ شخص بلا شرکت غیرے اس ملک کا حاکم رہا ہو اور اس کی پالیسیوں سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہو۔
لیکن اصل بات جس کی وجہ سے میں نے یہ کالم نہیں لکھا یہ تھی کہ جنرل صاحب کی روح تو سارا سال ہی ہمارے درمیان بھٹکتی رہتی ہے، لہذا آج کے دن اسے آرام کا موقع دیا جائے، اسے پھر کسی روز بلا کر پوچھ لیں گے کہ عالم ارواح میں روسی فوجیوں کے ساتھ کیسی گزر رہی ہے۔
پھر میرے دل میں آیا کہ جشن آزادی پر کالم لکھا جائے اور طنزیہ انداز میں پوچھا جائے کہ 75 برسوں میں ہم نے کیا تیر مارا ہے۔ ایک دو جملے بھی سوشل میڈیا پر نظر سے گزرے جنہوں نے مجھے یہ کالم لکھنے کی ترغیب دی، جیسے کہ ایک ستم ظریف نے لکھا کہ آج انگریزوں کو ہم سے آزاد ہوئے 75 برس ہوگئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح یوم آزادی کے موقع پر حکومتی سطح پر جو جشن منایا گیا اور جو رقص پیش کیے گئے اس پر ہمارے قدامت پسند طبقے نے جس ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اس پر تبرّا کرنے کا بھی ارادہ تھا لیکن پھر میں نے یہ سوچ کر کالم نہیں باندھا کہ یوم آزادی پر پہلے ہی کافی کچھ لکھا جا چکا اور ویسے بھی ملک کی سالگرہ ہے،کم از کم اس موقعے تو ہمیں اپنے رونے نہیں رونے چاہییں، بس آزاد ی کا کیک کاٹ کے کھانا چاہیے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر میں نے یہ تمام موضوعات رد کر دیے تھے تو پھر آج کے دن کے لیے کس موضوع کا انتخاب کیا؟ سچی بات یہ ہے کہ کل جب میں نے ٹوئٹر دیکھا تو اس پر فیصل آباد کی ایک لڑکی کا ویڈیو کلپ وائرل تھا جس میں چند لوگ اسے مجبور کر رہے تھے کہ وہ ان کے جوتے چاٹ کر ان سے معافی مانگے کہ اس نے رشتے سے انکار کیوں کیا۔
اس کلپ میں لڑکی نے روتے ہوئے اور سہمے ہوئے انداز میں ان خبیث افراد کے جوتے چاٹے اور ان سے معافی مانگی۔ ویڈیو میں ایک عورت کی آواز بھی سنی جا سکتی ہے جو اسے ایسا کرنے کاحکم دے رہی تھی۔
یہ کلپ دیکھنے کے بعد میری طبیعت مکدر ہوگئی، میں نے اپنا لیپ ٹاپ بند کیا اور سوچا کہ اب میں کیا لکھوں؟ ان ملزمان کو پولیس گرفتار کر چکی ہے اور وہ حوالات میں بند ہیں مگر اس لڑکی کے ساتھ جو توہین آمیز سلوک (یہ الفاظ کس قدر کھوکھلے لگ رہے ہیں) ہو چکا ہے اس کا مداوا شاید عمر بھر نہیں ہو سکے گا۔
جب بھی اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں، جس میں کسی عورت کی تذلیل کی جاتی ہے تو میں سوچتا ہوں کہ اس سے زیادہ پستی ممکن نہیں، لیکن میرا اندازہ غلط نکلتا ہے اور چند روز بعد کوئی اور واقعہ سامنے آجاتا ہے، جس کے مقابلے میں مجھے پچھلا واقعہ معمولی لگتا ہے۔
اس واقعے کے بعد میں ایک مرتبہ پھر سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ آخر اس قوم کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ ہم لکھاری لوگ اپنے تئیں اس قوم کی نفسیات کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں، اس ملک کے مسائل پر بھی روشنی ڈالتے رہتے ہیں اور وہ وجوہات تلاش کرنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں جو اس تنزلی کا باعث بنیں مگر بعض اوقات مجھے یوں لگتا ہے جیسے اس قوم کی بیماری کے حوالے سے ہماری ہر قسم کی تشخیص غلط ثابت ہو چکی ہے۔
جو کچھ اس لڑکی کے ساتھ ہوا، میں اس کی وجہ جاننے سے قاصر ہوں۔یہ کون لوگ ہیں جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں اور انہیں رتی برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ویڈیو کلپ میں جو عورت اس مجبور لڑکی کو جوتے چاٹنے کا حکم دے رہی ہے، وہ بار بار کہہ رہی ہے کہ ’جوتا چاٹتے ہوئے تیری زبان نظر آنی چاہیے۔‘ میں نہیں جانتا کہ مجھے اس کے بعد کیا لکھنا چاہیے، میرے پاس الفاظ ختم ہو گئے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔