اکیسویں صدی کی آمد ہوچکی تھی، عمر کوئی نو، دس برس ہوگی جب کانوں میں آوازیں پڑیں کہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔
اپنی آنکھوں سے اس دنیا کو ایک 20 انچ کے ڈبے میں قید ہوتے دیکھا۔ مختلف ثقافتوں اور بین الاقوامی منظر نامے سے فلموں، ڈراموں اور درجن بھر کھیلوں کی صورت میں شناسائی کا موقع ملا۔ وہیں سے ہمارے معاشرے کو ریموٹ کنٹرول کو ’کنٹرول‘ کرنے کے فن سے ’انگوٹھے‘ کے استعمال کی اہمیت کا اندازہ ہوا، پھر یہ دنیا ماؤس کلک پر سمٹی، رائٹ اور لیفٹ کلک پر انگلیوں نے ایسا طبلہ بجایا کہ دنیا کو انگلیوں پہ نچانے کا مطلب سمجھ میں آگیا۔
پبلک چیٹ سافٹ ویئرز، پرائیویٹ میسنجرز پر اے ایس ایل کے کھیل سے دل بھرا نہ تھا کہ سوشل میڈیا وارد ہوگیا۔ سوشل میڈیا یعنی گھر بیٹھے ایک اسکرین پہ پوری دنیا جیسے مٹھی میں آگئی۔
کیا اپنے، کیا پرائے، بھانت بھانت کے لوگوں، مختلف قومیتوں کے حامل اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان فاصلے جیسے ختم ہو گئے، لیکن یہیں سے کھرے کھوٹے کی تمیز بھی کم ہونا شروع ہوئی۔ صحیح غلط کا ادراک فضول سمجھا جانے لگا۔ سچ جھوٹ کا مکسچر تو ایسے عام ہوا کہ لوگوں کا ایک دوسرے سے ہی اعتبار اٹھنے لگا۔
’فیک نیوز‘ کی وبا ترقی یافتہ ملکوں میں بھی پھیلی لیکن ہمارے معاشرے میں تو اسے پیسہ بنانے کا کھیل سمجھ لیا گیا۔ جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا پر باقاعدہ صفحات کے صفحات کالے کیے گئے، جس میں سب سے زیادہ مطلب ’کتاب چہرہ‘ یعنی فیس بک سے پورا کیا گیا۔
تحقیق کس بلا کا نام ہے، تصدیق کس چڑیا کو کہتے ہیں ہماری بلا سے! بغیر سوچے سمجھے لائیک، شیئر اور کمنٹ کے کھیل کا ہمیں ایسا چسکا لگا کہ بطور معاشرہ ہم کالک اور سفیدی کا فرق ہی بھول گئے۔ ٹوئٹر اور یوٹیوب کو کمائی کا دھندا بنا کر ہر طرح کا ملغوبہ عوام کے سامنے ایسا پھیلایا گیا کہ عوام الجھن سلجھن کی گتھیاں ہی سلجھاتے رہ جائیں۔
سیاسی، معاشی اور معاشرتی اختلاف رائے رکھنے والوں کی اکثریت نے اپنے اپنے مفاد کی خاطر سوشل میڈیا پر دروغ گوئی کی داستانیں رقم کیں۔ اگر کسی شامت کے مارے نے تصحیح کرنے کی کوشش کی تو یہی سوشل میڈیا اس کے لیے وہ گٹر بنا دیا گیا جس میں سے زبان کے ڈونگے بھر بھر کر گالیوں کی کیچڑ اچھالی گئی۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں سوشل میڈیا اب ایسا کنواں بن گیا ہے، جہاں ہر کنویں کا مینڈک اپنی ڈفلی، اپنا راگ بجانے کے لیے کھڑا ہے۔
موبائل ڈیوائس پر دماغ کی جگہ ’انگوٹھے سے سوچنے والوں نے‘ ماں باپ، بہن بھائی، میاں بیوی کے رشتوں کی وہ دھجیاں اڑائیں کہ تربیت اور تہذیب چیخیں مارتی دور بھاگ گئی۔ ایسے ایسے ٹرینڈز متعارف کرائے گئے کہ بےشرمی نے بھی شرم سے منہ لپیٹ کر نو دو گیارہ ہونے میں ہیعافیت جانی۔
نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اگر کوئی بھولا بھٹکا غلطی سے اس فرق کو ٹاپنے کی کوشش کرتا ہے تو انگوٹھا بریگیڈ کے ہاتھوں اس بیچارے کی وہ درگت بنتی ہے کہ عزت بچانا مشکل ہوجاتی ہے۔ مغلظات کی بھرمار کے ساتھ آپ کی گزری اور آنے والی نسلوں کا ایسا حدود اربع بیان کیا جاتا ہے کہ سامنے والا ہاتھ جوڑ کر معافی تلافی پر مجبور کردیا جاتا ہے۔
اگر کوئی بندہ ٹھیک ٹھاک ڈھیٹ قسم کا نکلے تو یہی انگوٹھا بریگیڈ اس کی ذاتی معلومات، رشتے ناتوں کی تفصیلات کے ڈھیر سوشل میڈیا پر لگانے میں دیر نہیں لگاتی۔ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے ’اصلاح معاشرہ‘ کا ڈنڈا اٹھائے اس گروہ نے ہر سنجیدہ فکر رکھنے والے اور انگوٹھے کے بجائے ذہن اور عقل کو استعمال میں لانے والے کو اتنا زچ کردیا ہے کہ وہ مجبور ہوکر سوشل میڈیا سے متنفر ہونے لگا ہے۔
ابھی بھی شاید وقت ہاتھ سے نکلا نہیں، دور جدید ہے اور کہاوتیں بھی ہائی جیک ہوچکی ہیں۔ پہلے بڑے بتاتے تھے کہ کسی شہر کا مزاج جاننا ہو تو سڑک پر اس کا ٹریفک دیکھ لو، اب کہا جائے گا کہ کسی قوم کو اخلاق کی کسوٹی پہ پرکھنا ہو تو سوشل میڈیا پہ اس کا ٹریفک دیکھ لو۔
بہتر یہی ہے کہ ہم سنبھل جائیں ورنہ آزادی اظہار کے نام پر ہمارا معاشرہ جس اندھا دھند دوڑ میں شامل ہوچکا ہے اس کا ’دی اینڈ‘ پچھتاوے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ کسی دن ہمارا دماغ ہی ہمیں ’اَن سبسکرائب‘ کردے اور باقی کی زندگی انہی انگوٹھوں سے سوچنا پڑے۔