روسی صدر ولادی میر پوتن نے اپنی مسلح افواج میں ایک لاکھ 37 ہزار اہلکاروں کے اضافے کا حکم دیا ہے۔ صدارتی حکم نامہ ایسے موقعے پرجاری کیا گیا ہے جب روس کی یوکرین میں محاذ آرائی کو چھ ماہ مکمل ہوئے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعرات کو جاری پوتن کا حکم نامہ یکم جنوری سے نافذ العمل ہو گا جس میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ فوج میں اتنی بڑی تعداد میں بھرتیاں کیسے کی جائیں گی۔
صدارتی حکم نامے سے روسی فوجی اہلکاروں کی مجموعی تعداد 20 لاکھ 39 ہزار 758 ہو جائے گی جن میں ساڑھے 11 لاکھ حاضر سروس فعال اہلکار شامل ہیں۔
کریملن نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہ، روس یوکرین میں وسیع تر آپریشن پر غور کر رہا ہے، کہا ہے کہ صرف رضاکار کنٹریکٹ فوجی ہی یوکرین میں جاری ’خصوصی فوجی آپریشن‘میں حصہ لیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روسی میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ روسی حکام نے مزید رضاکاروں کو راغب کرکے، نجی فوجی کنٹریکٹروں کو شامل کرکے اور یہاں تک کہ فوج میں شامل ہونے کے بدلے کچھ قیدیوں کو عام معافی کی پیشکش کرکے، یوکرین میں فوجی کارروائی میں شامل فوجیوں کی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگرچہ روسی صدر کے نئے حکم نامے میں اضافے کی وجوہات کے عوامل پیش نہیں کیے گئے لیکن یہ پیش رفت ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ماسکو کی فوجیں مشرقی یوکرین کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے صف بندی کر رہی ہیں۔
یہ حکم نامہ روس اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی کو مزید ہوا دے سکتا ہے جنہوں نے یوکرین میں کارروائی کے خلاف ماسکو پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس کا فوجیوں کی تعداد بڑھانے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یوکرین کی جنگ میں اسے بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ماسکو نے جنگ کے بعد سے اس تنازعے میں کسی نقصان کا انکشاف نہیں کیا لیکن مغربی حکام اور کیئف حکومت کا دعویٰ ہے کہ فروری سے جاری جنگ میں روس کے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
روس نے پہلے ہفتوں میں جنگ میں مارے گئے اپنے فوجیوں کی تعداد 1,351 بتائی تھی تاہم مغربی اندازوں کے مطابق مرنے والے فوجیوں کی اصل تعداد کم از کم 10 گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ یوکرین میں اس کے 45 ہزار روسی فوجی شریک ہیں۔ دوسری جانب یوکرین نے بھی اپنے ہلاک ہونے فوجیوں کی تعداد کو ظاہر نہیں کیا ہے۔