60 لاکھ افغانوں کو قحط کا خطرہ: اقوام متحدہ کی وارننگ

اقوام متحدہ کے سربراہ برائے انسانی امور مارٹن گریفتھس نے اپیل کی ہے کہ افغانوں کو موسم سرما گزارنے میں مدد دینے کے لیے فوری طور پر 77 کروڑ ڈالر عطیہ کیے جائیں۔

25 اگست، 2022 کو افغان صوبے پروان کے ضلع بگرام میں ایک خاتون اور بچہ سر پر کھانا رکھے جا رہے ہیں (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے سربراہ برائے انسانی امور مارٹن گریفتھس نے کہا ہے کہ افغانستان کو غربت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا سامنا ہے جس میں 60 لاکھ افراد قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔

انہوں نےعطیہ دہندگان پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی معاشی ترقی کے لیے مالی امداد بحال کریں اور افغانوں کو موسم سرما گزارنے میں مدد کے لیے فوری طور پر 77 کروڑ ڈالر فراہم کریں۔

مارٹن گریفتھس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ افغانستان کو متعدد انسانی، مالی، معاشی، آب و ہوا اور بھوک کے بحرانوں کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جنگ، غربت، آب و ہوا اور غذائی عدم تحفظ ’طویل عرصے سے ایک افسوس ناک حقیقت‘ رہی ہے لیکن ایک سال قبل طالبان کے قبضے کے بعد بڑے پیمانے پر ترقیاتی امداد پر پابندی کی وجہ سے موجودہ صورتحال ’بہت نازک‘ ہوگئی ہے۔

گریفتھس نے کہا کہ نصف سے زائد افغان آبادی یعنی تقریباً 24 ملین افراد کو امداد کی ضرورت ہے اور ایک کروڑ 90 لاکھ کے قریب افراد کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ 

’ہمیں فکر ہے کہ اعداد و شمار جلد ہی بڑھ جائیں گے کیونکہ موسم سرما کی وجہ سے تیل اور اشیائے خوردونوش کی قیمتیں پہلے ہی آسمان چھو رہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ چیلنجوں کے باوجود اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور ان کے این جی او شراکت داروں نے گذشتہ ایک سال کے دوران ’غیر معمولی ردعمل‘ دکھایا اور یہ تقریباً دو لاکھ 30 ہزار افراد تک پہنچے۔

انہوں نے کہا کہ موسم سرما کے لیے فوری طور پر 61 کروڑ40 لاکھ ڈالر درکار ہیں جن میں پناہ گاہوں کی مرمت اور اپ گریڈنگ اور گرم کپڑے اور کمبل فراہم کرنا شامل ہے۔

’اس موسم کی وجہ سے بعض علاقوں تک رسائی منقطع ہونے سے قبل خوراک اور دیگر سامان کی پیشگی فراہمی کے لیے اضافی 15 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے۔

تاہم گریفتھس نے زور دے کر کہا کہ ’انسانی امداد اس نظام کی جگہ نہیں لے سکے گی جس کے ذریعے چار کروڑ لوگوں خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا:’طالبان کے پاس اپنے مستقبل میں سرمایہ کاری کے لیے کوئی بجٹ نہیں اور یہ واضح ہے کہ کچھ ترقیاتی معاونت شروع کرنے کی ضرورت ہے۔‘

70 فیصد سے زیادہ افغان باشندوں کے دیہی علاقوں میں رہنے کی وجہ سے گریفتھس نے خبردار کیا کہ اگر زراعت اور مویشیوں کی پیداوار کو نہ بچایا گیا تو ’لاکھوں جانوں اور ذریعہ معاش کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اور اس ملک میں خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت خطرے میں پڑ جائے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ملک میں بینکنگ اور لیکویڈیٹی بحران اور بین الاقوامی مالیاتی لین دین کی بہت بڑی مشکل سے بھی نمٹنا ہوگا۔

گریفتھس نے خبردار کیا کہ انسانی اور ترقیاتی دونوں محاذوں پر غیر فعالیت کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔

روس نے افغانستان سے امریکی انخلا کی پہلی برسی کے موقعے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا اور اس کے سفیر واسیلی نیبینزیا نے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی جانب سے’20 سالہ ذلت آمیز مہم‘ پر کڑی تنقید کی۔

روسی سفیر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے افغان معیشت کی تعمیر کے لیے کچھ نہیں کیا اور ان کی موجودگی سے ملک ’دہشت گردی کے مرکز‘ اور منشیات کی پیداوار کے طور پر مضبوط ہوا۔

انہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر الزام لگایا کہ وہ افغانوں کو ’بربادی، غربت، دہشت گردی، بھوک اور دیگر چیلنجوں‘ کا سامنا کرنے کے لیے چھوڑ رہے ہیں۔

واسیلی نیبینزیا نے کہا کہ انہوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے اور تباہ شدہ ملک کی تعمیر نو میں مدد دینے کی بجائے افغان مالی وسائل کو روک دیا اور اس کے مرکزی بینک کو سوئفٹ سے منقطع کر دیا جو عالمی مالیاتی لین دین کا مقبول نظام ہے۔

اقوام متحدہ میں چین کے سفیر ژانگ جون نے بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ترقیاتی امداد میں کٹوتی، افغان اثاثے منجمد کرنے اور ’سیاسی تنہائی اور ناکہ بندی‘ عائد کرنے کی ’ذمہ داری سے بچنے اور افغان عوام کو چھوڑنے‘ کا الزام لگایا۔

امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ ایسی پالیسیاں نافذ کر رہے ہیں جو افغان عوام کو تحفظ دینے کی بجائے دباتی اور بھوکا رکھتی ہیں اور انتہائی ضروری امداد پر ٹیکسوں میں اضافہ کرتی ہیں۔

انہوں نے پوچھا کہ طالبان جن کو کسی ایک ملک نے تسلیم نہیں کیا، باقی دنیا کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کیسے توقع کرتے ہیں جبکہ انہوں نے کابل کے شہر میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کی۔ وہ 31 جولائی کو امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

تاہم تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں دنیا کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے جس نے گذشتہ سال ملک اور خطے میں افغانوں کو77 کروڑ50 لاکھ ڈالر سے زائد کی انسانی امداد فراہم کی۔

جہاں تک افغان منجمد اثاثوں کا تعلق ہے، صدرجو بائیڈن نے فروری میں اعلان کیا تھا کہ امریکہ سات ارب ڈالر تقسیم کر رہا ہے۔

افغانوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ٹرسٹ فنڈ کے لیے 3.5 ارب ڈالر اور امریکہ میں 11 ستمبر کے دہشت گردحملوں کے متاثرین کے امریکی خاندانوں کے لیے 3.5 ارب ڈالر۔

تھامس گرین فیلڈ نے کہا:’کوئی بھی ملک جو افغانستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ ہے وہ طالبان کو افغان عوام کے اربوں اثاثوں تک فوری اور غیر مشروط رسائی دینے کی وکالت نہیں کرے گا۔‘

روس کے ان دعوؤں کے بارے میں کہ افغانستان کے مسائل طالبان کا نہیں بلکہ مغرب کا قصور ہے، تھامس گرین فیلڈ نے سوال کیا کہ آپ ماضی کو دہرانے اور دوسروں پر تنقید کے علاوہ اور کیا کر رہے ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ روس نے افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی انسانی اپیل میں صرف 20 لاکھ ڈالر کا تعاون کیا اور چین کی شراکت بھی ’اسی طرح غیر معمولی رہی۔‘

تھامس گرین فیلڈ نے کہا: ’اگر آپ اس بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں کہ افغانستان کو کس طرح مدد کی ضرورت ہے تو یہ ٹھیک ہے۔ لیکن ہم عاجزی سے مشورہ دیتے ہیں کہ آپ اپنا پیسہ وہاں رکھیں جہاں آپ کا منہ ہے۔‘

روس کے سفیر نے دوبارہ بات کرتے ہوئے اس تجویز کو’حیرت انگیز‘ قرار دیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ ہمیں ایک ایسے ملک کی تعمیر نو کی قیمت ادا کرنے کو کہا جا رہا ہے جس کی معیشت 20 سال کے امریکی اور نیٹو قبضے سے لازمی طور پر تباہ ہو چکی ہے؟

 ’آپ کو ہی اپنی غلطیوں کی قیمت ادا کرنی چاہیے۔ لیکن سب سے پہلے آپ کو افغان عوام کو وہ رقم واپس کرنے کی ضرورت ہے جو ان سے چرائی گئی ہے۔‘

امریکی سفیر تھامس گرین فیلڈ نے آخر میں کہا:’ اگر روسی فیڈریشن کا خیال ہے کہ افغانستان میں ایک تباہ ہونے والی ایک معیشت تھی تو اسے طالبان نے تباہ کیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا