بین الاقوامی امدادی تنظیم ریڈ کراس نے پیر کو مختلف ملکوں اور امدادی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ طالبان پر سیاسی اعتراضات کو ایک طرف رکھیں اور افغانستان کے ریاستی اداروں کو امداد کی فراہمی شروع کریں تا کہ ملک میں ناقابل برداشت حالات کی شدت کو کم کیا جا سکے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان نے پیر کو اقتدار کا پہلا سال مکمل ہونے پر چھوٹے پیمانے پر تقریبات کا اہتمام کیا تھا۔
افغانستان بڑھتی ہوئی غربت، خشک سالی اور غذائی قلت کا شکار ہے جس کی وجہ سے اس کی نصف سے زیادہ آبادی کو زندہ رہنے کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراہم کی جانے والی امداد پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔
بین الاقوامی کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) ان تنظیموں میں سے ایک ہے جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کو امداد فراہم کر رہی ہے۔
دیگر امدادی اداروں نے اچانک امداد بند کر دی تھی۔ یہ امداد نئے حکمرانوں کی جانب سے ’خواتین کے حقوق اور ملک پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی‘ کے خدشات کی بنا پر بند کی گئی۔
آئی سی آر سی کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹ مارڈینی کا کہنا ہے کہ امداد کی بندش جاری نہیں رہ سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’صرف امدادی تنظیمیں چار کروڑ آبادی والے ملک کے سرکاری اداروں کی جگہ نہیں لے سکتیں۔ ہمارا بنیادی پیغام ریاستوں کو ترقیاتی اداروں کو یہ کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں واپس جائیں اور افغان شہریوں کے لیے اپنی امداد جاری رکھیں جو آج ناقابل برداشت حالات سے گزر رہے ہیں۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ نے پیر کو دنیا پر زور دیا کہ وہ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے ایک سال بعد، دیگر بین الاقوامی بحرانوں کے باوجود افغان خواتین اور بچوں کی حالت زار کو نہ بھولے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نتالیہ کنیم نے طالبان کے اقتدار پر قبضے کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ جنگ سے تباہ حال ملک شدید مشکلات کا شکار ہے اور 95 فیصد آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’ان حالات میں کہ جب دنیا کو متعدد اور یکے کے بعد دیگرے بحرانوں کا سامنا ہے، ہمیں لازمی طور پرافغانستان کی خواتین اور لڑکیوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ جب خواتین اور لڑکیوں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں ملتے تو یہ ہم سب کی توہین ہے۔‘
انہوں نے خواتین کی تعلیم اور صحت تک رسائی کو مسلسل روکے جانے کی مذمت کی۔
نتالیہ کنیم کا کہنا تھا کہ ’ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کو خشک سالی اور یوکرین کی جنگ نے مزید سنگین بنا دیا ہے جس کا نتیجہ تقریباً 95 فیصد آبادی اور تقریباً وہ تمام خاندان جن کی سربراہی خواتین کر رہی ہیں ان کے پاس ضرورت کے مطابق خوراک موجود نہیں ہے۔‘