ایسا ممکن ہے کہ ایک انناس جتنا وزن رکھنے والے بندر کی دریافت سائنسدانوں کے لیے پہلے انسان کے ارتقا سے متعلق خیالات کو بدل کر رکھ دے۔
کینیا میں محققین کو 42 لاکھ سال پرانے ایک ننھے بندر کے فوسلز ملے ہیں جس کا وزن ایک کلو گرام تھا۔
اس نئی دریافت کو نینو پیتھکس بروئنی (Nanopithecus browni) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ دنیا میں سب سے قدیم چھوٹے بندر ’ٹالاپوئن‘ جتنا حجم رکھتا ہے۔
ننھے ٹالاپوئن صرف وسطی مغربی افریقہ کے جنگلوں میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کے برعکس این بروئنی کینیا میں دریافت ہوا ہے جو کہ اس براعظم کا مشرقی اوربالکل مختلف حصہ ہے۔
کینیا کے خشک مرطوب علاقے کا رہائشی یہ بندر لگ بھگ 42 لاکھ سال پہلے پایا جاتا تھا۔ اسی خطے سے انسانی اجداد کے قدیم ترین فوسلز بھی دریافت ہو چکے ہیں۔
نیشنل میوزیمز آف کینیا کے فریڈرک کیلو منتھی کے مطابق اس ننھے بندر کی دریافت سے ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح ماحول کی تبدیلی بندروں کے بڑے خاندان ’گینانز‘، جس میں ٹالاپوئن اور این بروئنی دونوں شامل ہیں، کے ارتقا کا باعث بنی ہے۔
گینانز آج افریقہ میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں لیکن یہ زیادہ تر حجم میں این بروئنی سے بڑے ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ گینانز کا حجم قدیم جنگلوں کی طرز زندگی پر منحصر تھا۔
یہ مانا جاتا ہے کہ جدید دنیا کے ٹالاپوئن میں اپنے اجداد کے مقابلے میں وقت کے ساتھ ساتھ قدوقامت میں کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ وہ گھنے اور دلدلی علاقوں میں رہنے لگے ہیں۔
لیکن کینیا میں ہونے والی نئی دریافت نے یہ ثابت کیا ہے کہ گینانز میں قدوقامت کی تبدیلی اس سے بھی پہلے سے شروع ہو چکی تھی۔
یہ حیران کن حقائق نیشنل میوزیمز آف کینیا، یونیورنسٹیز آف ارکنسا، میسوری اور ڈیوک کے سائنسدانوں کی جانب سے سامنے لائے گئے ہیں۔
منتھی نے کہا: ’نینوپیتھکس کی دریافت سے ارتقا کو سمجھنے میں کینیا کے کردار کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ پلایوسین دور کےجانوروں کے تنوع اور اس ماحول کی تبدیلی کو سمجھنے میں بھی مدد دیتی ہے جس میں وہ رہتے رہے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہو سکتا ہے پلایو-پلائسٹوسین دور کی ماحولیاتی تبدیلیوں نے گینانز کی موجودہ دور کی تقسیم پر بھی اثرات مرتب کیے ہوں۔‘
© The Independent