پاکستان کی سیاست میں اس وقت بھونچال کی صورت حال ہے اور اس سیاسی بھونچال کا مرکز عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف ہیں۔
عمران خان کے دورِ اقتدار کے وقت مائنس ون کی گونج تھی۔ اور اب اُن کی نا اہلی کی۔ عمران خان جب حکومتی تخت سے اُترے تو بظاہر حد درجہ پراعتماد انداز میں سیاسی منظر نامے پر اُبھرے۔
اُن کی باڈی لینگوئج، سیاسی مزاج، سیاست کا انداز اور لب و لہجہ خاصہ دلچسپ دکھائی دیا۔
پی ٹی آئی کپتان حقیقی آزادی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ایوان سے میدان میں آگئے۔ لگ یہ رہا تھا کہ اب نہ ہی عمران خان کو کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ان کے راستے کی دیوار بن سکے گا ۔ اور عمران خان اب ’ان اسٹاپ ایبل‘ ہوں گے۔
بظاہر مقبولیت کی ایک لہر آئی اور چیئرمین پی ٹی آئی کو پذیرائی کی بلندیوں پر لے جاتی دکھائی دی۔ لیکن قدرت کا یہ کرنا تھا کہ مقبولیت کے اس جھونکے نے عمران خان کو اچانک کسی اور جانب جھونک دیا۔
اب صورت حال قدرِ مختلف ہے۔ جس کے بعد عمران خان کو پارٹی کی جانب سے پی ٹی آئی کی ’ریڈ لائن‘ قرار دیا جا چکا ہے۔ کیونکہ اب یہ ریڈ لائن خاصے کڑے امتحانات کی ’ٹائم لائن‘ کی زَد میں ہے۔ وہ ٹائم لائن ہے مقدمات در مقدمات کی۔
سب سے بڑھ کر اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہین عدالت کا کیس جو اب انتہائی غیر معمولی فیز میں داخل ہو چکا ہے۔
بات اب معافی تلافی سے بھی کافی آگے نکل چکی ہے کیونکہ بال اب کورٹ کے ’کورٹ‘ میں ہے اور پی ٹی آئی کے کپتان اُسی کورٹ کے کٹہرے میں۔
لگتا یہی ہے کہ اِقتدار جانے کے بعد پہلی بڑی رکاوٹ اور بڑا امتحان جو عمران خان کو درپیش ہے وہ اب نا اہلی کی لٹکتی تلوار ہی ہے اور واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ عمران خان نا اہلی سے بچ نہیں سکیں گے۔
عمران خان نے ’خطرناک‘ بنتے بنتے اپنی پوری پارٹی کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ اگر عمران خان عدالت کی جانب سے نا اہل قرار دے دیے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں کپتان کی ’شِپ‘ صاف صاف ڈوبتی دکھائی دے رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان نا اہل ہو جاتے ہیں تو پھر اس کے بعد کا منظرنامہ کیا ہوگا۔ نہ صرف عمران خان کی پارٹی کا مستقبل خطرے میں ہوگا بلکہ خود عمران خان کا سیاسی مستقبل بھی کیونکہ نا اہلی کی صورت میں عمران خان وزیراعظم نہیں بن سکیں گے۔
تحریک انصاف جو قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ تو کرتے دکھائی دے رہی ہے لیکن ایسی صورت حال میں جب اُس جماعت کا لیڈر اور قائد ہی نا اہل قرار دے دیا جائے اور جب اُس جماعت کے پاس عمران خان کے بعد کوئی مرکزی قیادت نہیں۔
اس صورت میں عمران خان کیا کر سکیں گے؟ کیونکہ اگر وہ نا اہل قرار پا گئے تو نہ صرف ان کی سیاست کا بلکہ تحریک انصاف کا شیرازہ بکھرنے کا اندازہ غلط نہ ہوگا۔
جہاں تک بات ہے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی مقبولیت کی تو یہ ایک ایسا بلبلہ ہے جسے بظاہر محض ایک تاثرگردانا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ایک طرف عمران خان کی مقبولیت کو لے کر پی ٹی آئی بیانیہ ہے تو دوسری طرف عوامی تاثرات، جو کچھ اور ہی بتلا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ذہن و گمان میں پائے جانے والے اندازے میدان میں غلط ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، پشاور اور ملتان جلسے جس کی واضح مثال ہیں۔ یہ مقبولیت کا ایک بلبلہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہاں! اس مقبولیت کو ’ہائبرڈمقبولیت‘ تو ضرور قرار دیا جا سکتا ہے لیکن عوامی تائید حاصل ہونے کا دعویٰ یا تو محض دِکھا وا ہے یا پھر ’دِل کو بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔‘
دوسری جانب پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت پر بھی خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں اور اہلِ سیاست سے خبریں یہی ہیں کہ کسی بھی وقت گرائی جاسکتی ہے۔ تاہم پنجاب حکومت کو گرانے کا راستہ کیا ہو گا؟
وہ کارڈز ابھی تک پی ڈی ایم کی حکومت نے یعنی ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے اپنے سینے سے لگا کر رکھے ہوئے ہیں۔
لیکن کہانی پسِ پردہ چل ضرور رہی ہے۔ ایک معاملہ ن لیگ کے قائد نواز شریف کی واپسی کا بھی ہے۔ موجودہ سیاسی تناظر میں نواز کب پرواز کریں گے، یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔
لیکن اطلاعات ہیں کہ اُن کی واپسی اگلے سال کے آغاز یا اوائل میں متوقع ہو سکتی ہے۔
قومی سیاست کب کیا رُخ اختیار کرتی ہے یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت نہ صرف عمران خان بلکہ پوری کی پوری تحریک انصاف کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔
تحریک انصاف اپنے دورِ حکومت میں تو مائنس ون کے آفٹر شاکس سہہ گئی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ عدالت کے ممکنہ ’نا اہلی‘ کے فیصلے کو بھی سہہ پائے گی؟
اُس وقت کے مائنس ون کامطلب صرف اقتدار سے دُوری تھا لیکن اب کی بار ممکنہ نا اہلی کی صورت میں ہونے والا مائنس ون نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ خود عمران خان کیلئے ’خطرناک‘ ثابت ہو سکتا ہے۔
آخری اور اہم سوال یہ کہ کیا پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ ہونے والے نا اہلی اور مائنس ون کے واقعات کے بعد کی طرح خود کو سنبھال پائے گی یا پھر اس کا انجام بھی ایم کیو ایم کی طرح کا ہوگا جس کے پاس کوئی ’نمبر ٹُو‘ قیادت نہیں۔
اس سوال کا جواب 22 ستمبر کو ہونے والی اہم عدالتی سماعت کے بعد ہمیں مل جائے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔