پاکستان کی اندرونی سلامتی کا بڑھتا بحران

پاکستان کی سکیورٹی صورت حال اگلے مہینوں میں مزید بگڑ سکتی ہے۔ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ صرف آپریشنز سے امن ممکن نہیں۔

کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر  11 مارچ 2025 کو بلوچ لبریشن آرمی کے جنگجوؤں نے حملہ کیا تھا۔ اسی مقام پر موجود ریل گاڑی کی ایک تصویر (انڈپینڈنٹ اردو)

مارچ 2025 کا مہینہ پاکستان کے لیے داخلی سلامتی کے اعتبار سے نہایت سنگین ثابت ہوا۔ دہشت گرد حملے، خودکش دھماکے اور بڑھتی ہوئی اموات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک میں شدت پسندی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ مجموعی طور پر 95 پرتشدد واقعات میں 361 افراد جان سے گئے، جن میں عام شہری، سکیورٹی اہلکار اور خود حملہ آور بھی شامل تھے۔

یہ صورت حال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا محض عسکری اقدامات سے امن قائم کیا جا سکتا ہے؟ یا ہمیں ایک جامع سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو ان تنازعات کی جڑوں کو سمجھ کر ان کا حل تلاش کرے۔

بلوچستان میں شدت پسند تحریک کا نیا موڑ

بلوچستان لبریشن آرمی(بی ایل اے) کی جانب سے جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ، جس میں 100 کے قریب سکیورٹی اہلکار بھی یرغمال بنائے گئے، محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک سنگین پیغام تھا۔ اس کارروائی نے واضح کر دیا کہ بلوچ علیحدگی پسند نہ صرف منظم ہو چکے ہیں بلکہ وہ روایتی بغاوت سے نکل کر اب جدید جنگی حکمت عملیوں کو اپنانے لگے ہیں۔

ایران اور افغانستان میں ان کی محفوظ پناہ گاہیں، مقامی آبادی میں پائے جانے والے شکوے اور بڑھتی ہوئی گوریلا صلاحیتیں انہیں مزید خطرناک بنا رہی ہیں۔

بلوچ راجی آجوئی سنگر(بی آر اے ایس) نے بھی ایک نئی حکمت عملی کے تحت ایک متحد محاذ (بلوچ نیشنل آرمی) کے قیام کا اعلان کیا ہے جو سیاسی و سفارتی محاذ پر بھی سرگرم ہوگا۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو بھی نشانہ بنانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

ٹی ٹی پی کی واپسی اور ’الخندق‘ حملے

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دو سال کی خاموشی کے بعد ’الخندق‘ کے نام سے اپنی بہار مہم کا آغاز کیا۔ خیبرپختونخوا، جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں ان کے حملے بڑھے ہیں۔

پنجاب میں داخل ہونے کی آٹھ کوششیں ناکام بنائی گئیں، تاہم ان کی منظم تیاری اور جدید اسلحے کی موجودگی واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ یہ خطرہ کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ٹی ٹی پی کی ہم خیال ایک نئی تنظیم ’حرکت انقلاب اسلامی پاکستان‘ بھی منظر عام پر آئی ہے، جس نے سکیورٹی فورسز کو اپنے حملوں کا مرکز قرار دیا ہے۔

یہ تنظیم بھی شرعی نظام کے قیام کا نعرہ لگا کر اسی پرانی مگر خطرناک سوچ کو پروان چڑھا رہی ہے۔

خودکش حملوں کا خطرناک رجحان

مارچ میں کم از کم پانچ خودکش حملے ہوئے، جن میں مختلف تنظیموں نے حصہ لیا۔

خواتین بمباروں کا استعمال، جیسے بی ایل اے آزاد کی حملہ آور، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اب جنگ میں روایتی خطوط کو بھی توڑا جا رہا ہے۔

اسی طرح حافظ گل بہادر گروپ جو القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھتا ہے، نے ’لال مسجد کا انتقام‘ کے نام پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔

گل بہادر کا دائرہ اثر اور ٹی ٹی پی سے مقابلہ

گل بہادر گروپ کی حالیہ سرگرمیاں، لاہور، کراچی اور کوہاٹ تک پھیل چکی ہیں۔ ان کے ساتھ القاعدہ کی 313 بریگیڈ اور دیگر پرانے ٹی ٹی پی دھڑے بھی شامل ہو چکے ہیں۔ اس اتحاد نے انہیں ملک بھر میں حملے کرنے کی صلاحیت فراہم کر دی ہے۔

ریاستی ردعمل

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت بلوچستان نے لیویز فورس میں انسداد دہشت گردی ونگ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ مقامی فورسز کی کارکردگی بہتر ہو۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا صرف فورسز کی تنظیم نو کافی ہوگی؟ یا ہمیں ان علاقوں کے عوامی مسائل کو سیاسی حکمت عملی کے تحت حل کرنے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستانی نمائندے منیر اکرم نے افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر طالبان حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ رہیں گے، تو سرحدی علاقوں میں امن قائم کرنا ناممکن ہوگا۔

ٹی ٹی پی کے خلاف ’آپریشن بدر‘ کا اعلان کیا گیا ہے جس میں چار مقاصد طے کیے گئے ہیں۔

ٹی ٹی پی کی قیادت کا خاتمہ، سرحدوں کا تحفظ، پناہ گاہوں پر حملے اور مقامی کمیونٹی کو ساتھ ملا کر انسداد دہشت گردی مہم چلانا۔

عسکری طاقت سے آگے بڑھنے کی ضرورت

پاکستان کی سکیورٹی صورت حال اگلے مہینوں میں مزید بگڑ سکتی ہے۔ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ صرف آپریشنز سے امن ممکن نہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے کو ختم کیے بغیر کوئی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اگر سیاسی عمل کو نظر انداز کیا جاتا رہا تو عسکری کامیابیاں بھی عارضی ثابت ہوں گی۔

ماضی کی مثالیں بتاتی ہیں کہ جہاں عسکری آپریشنز کے ساتھ سیاسی عمل نہیں ہوتا، وہاں تنازعات شدت اختیار کر لیتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم طاقت کی زبان سے ہٹ کر بات چیت، مقامی مطالبات کا ادراک، اور سفارتی حکمت عملی کو اہمیت دیں۔ ورنہ، یہ جنگ ایک نہ ختم ہونے والے دائرے میں داخل ہو جائے گی — جس میں نقصان صرف پاکستان کا ہوگا۔

مصنف ایس راجاراتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور کے سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر