آزاد، کشمیر اور آزادی

جموں و کشمیر میں مینسٹریم کو کامیاب کرنا یا ہرانا بڑی بات نہیں ہے لیکن آزادی کے جذبے کو ختم کرنا یقیناً ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا جائے گا۔

16 اگست 2022 کو سری نگر کے جنوب میں 50 کلومیٹر کے فاصلے پر شوپیاں کے چوٹی پورہ علاقے میں مشتبہ عسکریت پسندوں کی جانب سے سیب کے باغ میں گولی مارنے کے بعد سنیل کمار کی لاش کو ان کے گھر لے جایا جا رہا ہے۔ چند رشتہ دار خواتین غم کا اظہار کر رہی ہیں (اے ایف پی/ توصیف مصطفٰی)

یہ تحریر آپ پوڈکاسٹ کی صورت میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں گذشتہ تین سال کے دوران آزادی کے حق میں نہ کوئی جلسہ ہوا اور نہ کوئی ریلی نکالی گئی جیسا کہ 5 اگست 2019 سے پہلے آزادی کے حق میں سرگرمیاں ہوتی رہتی تھیں۔

ایک کشمیری صحافی نے اس کی ایک یہ وجہ بتائی کہ ’تین سال کے دوران عوام نے جو ذہنی اور جسمانی اذیت برداشت کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے انسان کا زندہ رہنا بھی معجزے سے کم نہیں۔‘

کیا آزادی کیمپ کو اب ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا ہے یا خود اس کیمپ نے حالات سے سمجھوتہ کر کے خاموشی اختیار کر لی ہے؟ جب بھی وادی کے موجودہ مخدوش حالات اور جبری خاموشی کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو یہ سوال وادی کے اندر اور باہر اکثر کیا جاتا ہے۔

حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا خیال ہے کہ اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے بعد اس نے نہ صرف عوام کے اندر آزادی کا جنون ختم کر دیا ہے بلکہ مینسٹریم کی دبے لفظوں میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کا معاملہ بھی ہمیشہ کے لیے زمین بوس کر دیا ہے۔

جموں میں بی جے پی کے ایک کارکن سدھرشن سنگھ کے مطابق ’مینسٹریم جماعتیں انڈین بن کر جو دوہرا کھیل کھیلنے کے عادی ہوگئی تھیں وہ اب بات کرنے کے لائق نہیں رہی ہیں۔ وہ بےنقاب ہوچکی ہیں اب تو آرٹیکل 370 کی واپسی کے بارے میں خودان کے رہنما کہتے ہیں کہ اسے واپس لانے کی کوئی امید نہیں ہے۔ ان کی سیاست کا جنازہ اٹھ گیا ہے۔‘

جب سے غلام نبی آزاد نے انڈین کانگریس سے رشتہ توڑ کر کشمیر کی سیاست سے رشتہ قائم کیا ہے اس وقت سے خطے کی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں میں انتشاری کیفیت پائے جانے لگی ہے۔

مقامی جماعتوں کا ماننا ہے کہ غلام نبی آزاد بی جے پی کا منصوبہ لے کر وارد کشمیر ہوئے ہیں۔ آزاد نے بارہمولہ میں حال ہی میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس الزام کو مسترد کر دیا اور کہا کہ میں کسی پارٹی کا نہ طرف دار ہوں اور نہ کسی منصوبے کی حمایت کرتا ہوں۔ ’میں حقیقت پسندی کا قائل ہوں اور میں مقامی جماعتوں کی طرح کبھی یہ جھوٹ نہیں بولوں گا کہ آرٹیکل 370 کو واپس لاکر رہوں گا۔ جو رہنما یہ کہتے ہیں انہیں میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس کے لیے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت ہونا لازمی ہے جو خود بی جے پی کے پاس نہیں ہے تو کانگریس کی بات ہی نہیں۔‘

آزاد نے اس بات پر زور دیا کہ ’میں اس خطے کو ریاستی درجہ دلانے، زمین اور ملازمت کے حقوق واپس حاصل کرنے کے لیے لڑوں گا باقی اور کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ میں عوام کا اعتماد حاصل کرنے آیا ہوں۔‘

خطے کی طاقتور مقامی پارٹی نیشنل کانفرنس کی انتخابی سیاست اس مفروضے پر چلتی آرہی ہے کہ بھارت کے ساتھ مشروط الحاق ہوا تھا جس نے آئین ہند میں آرٹیکل 370 کی بنیاد ڈالی تھی۔ این سی کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی اندرونی خودمختاری کو ریاستی قانون ساز اسمبلی کی اجازت کے بغیر پارلیمان ختم نہیں کرسکتی۔

نیشنل کانفرنس کے ایک سرکردہ کارکن کہتے ہیں کہ ’بی جے پی کی حکومت سپریم کورٹ میں اندرونی خودمختاری سے متعلق پیٹیشن کی سماعت نہیں کرنے دیتی ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ یہ آئین کے مخالف اقدام ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آزاد کو نئی اسمبلی کا رہنما بنا کر آئین مخالف اقدام پر مہر ثبت کروانے کا منصوبہ ہوگا اور اس وقت تک عدالت کی سماعت نہیں کرنے دی جائے گی۔‘

پی ڈی پی کی رہنما محبوبہ مفتی نے جو نیشنل کانفرنس سمیت چند جماعتوں کے گپکار اتحاد میں شامل ہے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کے مسئلے کا واحد حل سیلف رول میں مضم رہے جو انڈین آئین کا حصہ ہے اور جس پر شب خون مارا گیا ہے۔ خطے کی تمام سیاسی جماعتوں کو ذاتی سیاست چھوڑ کر اس کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔

آزاد نے نئی پارٹی کا اعلان تو کیا ہے اور اسے آزاد نام رکھنے کا اشارہ بھی دیا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ وہ آزادی کےحامی نہیں ہے اور انہیں انڈیا کے آئین پر اعتماد ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جموں کے بعض حلقوں کی طرف سے ان کا خاصا خیرمقدم کیا گیا ہے لیکن کشمیر میں عوام نے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی جہاں پہلے ہی مینسٹریم کی تمام جماعتیں اعتبار کھو چکی ہیں اور اپنی شناخت بچانے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔

بی جے پی کی یہ بات کسی حد تک صیح ہے کہ اس نے کشمیر میں آزادی کے بیانیے کو فی الحال ختم کرکے انڈیا کے آئین کے تحت اپنے بنیادی حقوق تلاش کرنے پر تمام سیاسی جماعتوں کو مصروف رکھا ہے مگر دوسری جانب عوامی حلقوں میں جذبہ آزادی کو ختم کرنا مشکل ہو رہا ہے جس کی تازہ مثال پلوامہ میں حالیہ طلبہ جلوس ہے جب منشیات کے خلاف مہم کے دوران ’ہم کیا چاہتے آزادی‘ کے نعرے لگے اور انتظامیہ کو فوری طور پر طلبا کو تتر بتر کرنا پڑا۔

عوام خاموش ہے لیکن اس خاموشی کو اس وقت سمجھنا مشکل ہے۔

شاید ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان نواز کشمیریوں کو پاکستان میں اندرونی سیاسی انتشار ختم ہونے کا انتظار ہے۔

بیشتر مبصرین کے مطابق پاکستان نے کشمیر مسئلے کو بظاہر ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ہے جس کا ادراک کشمیریوں کو بھی ہے لیکن پھر کشمیر کو شملہ معاہدے میں بھی لپیٹ لیا گیا تھا، چند برسوں کے بعدعسکری تحریک نے ایسا سر اُبھارا کہ آج بھی اس سے چھٹکارا حاصل نہیں ہو پارہا ہے اور جس میں بقول انڈیا، پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

جموں و کشمیر میں مینسٹریم کو کامیاب کرنا یا ہرانا بڑی بات نہیں ہے لیکن آزادی کے جذبے کو ختم کرنا یقیناً ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا جائے گا۔

معروف ناول نگار ارون دھتی رائے لکھتی ہیں کہ ’پہلے کشمیری انڈیا سے آزادی مانگتے تھے اب پورا انڈیا، انڈیا سے آزادی مانگ رہا ہے۔‘

میرا ماننا ہے انڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی 70 برس کے بعد آزادی کی جدوجہد دوبارہ شروع کرچکا ہے۔ سیاسی چہرے صرف بدل گئے ہیں، ادھر راہل گاندھی ہیں تو ادھر عمران خان۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کے بیچ میں کشمیر لٹک رہا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا صروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ