آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ کراچی سٹیڈیم میں ہونے والے میچ پر جو سلسلہ تنقید سے شروع ہوا تھا وہ اچانک ہی تعریف میں کیسے تبدیل ہوتا چلا گیا۔
اور ایک ہی میچ میں پاکستان کے لیے سب کچھ اچانک ہی اچھا ہونے لگا۔
خراب بولنگ، خراب فیلڈنگ، مڈل آرڈر کی خراب کارکردگی اور خراب سٹرائیک ریٹ۔۔ یہ سب کسی کو یاد بھی ہیں؟
بھئی جب بابر اعظم کھیلتا ہے نا تو کچھ یاد نہیں رہتا۔
کراچی سٹیڈیم میں بابر اعظم کی فارم واپس آتی دکھائی نہیں دی بلکہ واپس آ گئی ہے۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سارا کریڈٹ بابر اعظم کو ہی کیوں، رضوان بھی تو کریز پر موجود رہے۔ تو آپ خود ہی بتائیں جو دنیا کا نمبر ایک بلے باز ہے اس کے بارے میں اس زیادہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ نمبر ایک بلے باز ہیں۔
چلیں میچ کی کہانی شروع سے شروع کرتے ہیں۔ انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے خود ہی بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا جس سے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ورلڈ کپ سے قبل ہدف کے دفاع کی بھی تیاری کرنا چاہتا تھا۔
فیصلہ صحیح ثابت ہوا اور انگلینڈ نے گذشتہ میچ کے مقابلے میں قدرے بہتر پچ پر وکٹیں گرنے کے باوجود کھل کر کھیلنا شروع کیا اور پاکستانی فینز یہ کہتے دکھائی دینے لگے کہ ٹی ٹوئنٹی میں ایسے کھیلا جاتا ہے، سٹرائیک ریٹ اس طرح سے بڑھائے رکھنا ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اوپر سے پاکستانی فیلڈرز نے ناقدین کو کیچز چھوڑ کر مزید تیر برسانے کا موقع دے دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی بولرز آج کچھ زیادہ ردھم میں دکھائی نہیں دے رہے تھے مگر انگلش بولر کا جو حال ہوا وہ آپ کو آگے چل کر معلوم ہو ہی جائے گا۔
انگلینڈ نے کیچز چھوٹنے اور خراب بولنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 200 رنز کا بڑا ہدف پاکستان کے آگے یہ سوچ کر رکھا کہ جو ٹیم پچھلے میچ میں لڑکھڑاتے ہوئے ڈیڑھ سو تک ہی پہنچی تھی وہ اتنا بڑا سکور کیسے کرے گی۔ اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ پاکستانی بلے بازوں کو لیگ سپنر کھیلنے میں مشکل رہی ہے۔
انگلینڈ کی طرف سے معین علی اور بین ڈکٹ نے جارحانہ اننگز کھیلی۔ معین علی نے 23 گیندوں پر 55 اور ڈکٹ نے 22 گیندوں پر 43 رنز بنائے۔
مگر انگلینڈ کو شاید یہ معلوم نہیں تھا کہ بابر اعظم اور محمد رضوان کو 200 کے ہندسے کے پیچھے جانے کی عادت سی ہے۔
یہ دونوں اوپنرز اس پہلے بھی دو سو سے زائد کے ہدف کے تعاقب میں ایک بار 197 اور ایک مرتبہ 158 رنز کی شراکت داری کر چکے ہیں۔
اور آج تو کسی دوسرے کو کھیلنے ہی نہیں دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایشیا کپ سے خارب فارم لیے کراچی سٹیڈیم میں جمعرات کی شام بیٹنگ کے لیے اترنے والے بابر اعظم سنچری سکور کر کے ان کی خراب فارم کے بارے میں سوال کرنے والوں سے سوال کر دیا کہ کیسی خراب فارم؟
کم سٹرائیک ریٹ سے کھیلنے کے تعنے سننے والے محمد رضوان نے بھی آج الٹا سوال کر دیا کہ سٹرائیک ریٹ کیا ہوتا ہے؟
نصف سنچریوں پر نصف سنچریاں سکور کرنے والے محمد رضوان بھی آج کچھ الگ رنگ میں دکھائی دیے اور 51 گیندوں پر 88 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ انہوں نے اس اننگز میں چار چھکے اور پانچ چوکے لگائے۔
دوسری جانب خراب فارم سے لڑنے والے بابر اعظم نے نہ صرف فارم میں واپسی کی، سنچری بھی سکور کی اور ٹیم میں میچ بھی جتوایا۔
بابر اعظم نے 66 گیندوں پر 110 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی جس میں پانچ چھکے اور گیارہ چوکے شامل ہیں، جبکہ بابر اعظم نے 166 اور محمد رضوان نے 172 کے سٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کی۔
اس طرح پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف پہلے میچ میں بری شکست کے بعد دوسرے میچ میں دس وکٹوں سے شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔
If you think Babar and Rizwan have been the problem… you really haven’t been watching the last couple of years !!
— Nasser Hussain (@nassercricket) September 22, 2022
بابر اعظم اور محمد رضوان کی اس عمدہ بلے بازی کو دیکھتے ہوئے پہلے تو پاکستان کے سابق کپتان اور کوچ وقار یونس نے میچ کے دوران ہی کہا کہ ’پاکستان کو اسی انداز میں کھیلنے کی ضرورت ہے، چاہے ہدف کچھ بھی ہو۔‘
جبکہ انگلینڈ کے سابق کپتان ناصر حسین کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ کے خیال میں بابر اور رضوان مسئلہ ہیں۔۔۔ تو آپ گذشتہ دو سالوں سے دیکھ ہی نہیں رہے تھے۔‘
یہ بابر اعظم اور محمد رضوان کے درمیان ساتویں سو رنز سے زائد کی شراکت داری تھی۔ اس بارے میں میچ کے بعد بابر اعظم نے کہا کہ دونوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہے، ’یہی وجہ ہے کہ ہم دوڑ کر رن بنانے میں بھی ہچکچاتے نہیں ہیں۔‘
I think it is time to get rid of Kaptaan @babarazam258 and @iMRizwanPak. Itne selfish players. Agar sahi se khelte to match 15 overs me finish hojana chahye tha. Ye akhri over tak le gaye. Let's make this a movement. Nahi?
— Shaheen Shah Afridi (@iShaheenAfridi) September 22, 2022
Absolutely proud of this amazing Pakistani team. pic.twitter.com/Q9aKqo3iDm
پاکستان نے جس طرح کی بولنگ کی کچھ اسی طرح کی بولنگ اور فیلڈنگ انگلینڈ کی طرف سے بھی دیکھنے کو ملی اور معین علی جنہوں نے پاکستانی بولرز سے خوب رن بٹورے انگلینڈ کی طرف سے سب سے مہنگے بولر رہے۔
معین علی نے ایک ہی اوور کرایا جس میں انہوں نے 21 رنز دیے۔ ان کے علاوہ ڈیوڈ ویلی نے 44 اور ووڈ نے 49 رنز دیے۔ پاکستان کی طرف سے محمد حسنین 51 رنز دے کر سب سے مہنگے بولر رہے ہیں۔
پاکستان کی اس انداز میں جیت اور سیریز میں واپسی سے جہاں پاکستان ٹیم پر تنقید کرنے والے اگلے میچ تک خاموش ہو گئے ہیں وہیں انگلینڈ کو بھی سیریز کے اگلے میچز دیکھ بھال کر کھیلنے ہوں گے اور وہ اس طرح سے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ تو بالکل نہیں کریں گے۔
کیونکہ اب وہ بھی جانتے ہیں کہ بابر اعظم از بیک۔