یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
اس ہفتے پاکستان کی سب سے بڑی خبر اسحاق ڈار کا وطن واپس آ کر وزیرِ خزانہ کے عہدے کا حلف اٹھانا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور پاکستان کے تین بار منتخب وزیراعظم نواز شریف کے دستِ راست اسحاق ڈار سے پی ٹی آئی کی وابستگی والے صدر مملکت عارف علوی نے بغیر حیل و حجت کے حلف لے لیا ہے تو خوش یقین اہلِ وطن اس میں اچھی خبر دیکھ رہے ہیں۔
اسحاق ڈار کے چوتھی بار وزیر خزانہ بنتے ہی پاکستانی روپے نے اونچا اٹھ کر، سٹاک مارکیٹ نے کئی قدم بڑھ کر اور پیٹرول کی قیمت نے جھک کر سلامی پیش کی ہے۔ ڈار صاحب نے بھی شمع دان سامنے آتے ہی مطلع عرض کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے مشن چیف نیتھن پورٹر سے ورچوئل میٹنگ میں اپنے معاشی مسائل کھل کر بیان کر دیے ہیں کہ سیلابی آفت کے پیشِ نظر ادارے کو پاکستان پہ ’ہتھ ہولا‘ رکھنے کی ضرورت ہے۔
مزید براں روپے کی مسلسل اور پراسرار گراوٹ کو دیکھتے ہوئے اس بات پہ نوٹس بھی لے لیا گیا ہے کہ ایکسپورٹس میں جو نئی ایل سی یعنی لیٹر آف کریڈٹ کھولے جا رہے ہیں وہ مارکیٹ کی قیمت سے پانچ چھ ڈالر زیادہ پہ کھل رہے ہیں۔ کیوں؟
اسحاق ڈار سے اگر قوم نے نئے معاشی رفو گر کی حیثیت سے امیدیں لگائی ہیں تو اس کے پیچھے ڈار صاحب کی پرانی چارہ گری کی مثالیں موجود ہیں لیکن آج کے مختلف بگڑے حالات میں یہ کیا جادو گری دکھاتے ہیں وہ دیکھنے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔
پھر بھی معاشی اشاریوں کا آغاز تو اچھا ہے لیکن مفتاح اسماعیل کے کچھ اربابِ وفا، شکوہ گر بھی ہیں اور سچ بھی یہی ہے کہ مشکل ترین حالات میں قربانی دینے اور سخت فیصلے کرنے کا سہرا بہر حال خوش دلی سے استعفیٰ پیش کرنے والے مفتاح اسماعیل کے سر ہی بندھا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ جب مفتاح نے زخم زخم معیشت کی رفو گری کا کام سنبھالا تھا تو حالتِ معیشت دیکھ کر وہ بزبانِ غلام ہمدانی مصحفی کہہ اٹھے تھے کہ
مصحفی، ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بڑا کام رفو کا نکلا!
لیکن اب بات نئے رفو گر کی جادو گری پہ ٹھہری ہے۔ کسے یاد نہیں کہ مئی 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈالر کی 40 سے 60 تک کی اڑان کے بعد فارن کرنسی اکاؤنٹس منجمد کیے گئے تھے اور پھر اسے 50 سے نیچے لایا گیا تھا۔
پھر 2014 کے بعد بھی ڈالر کے پر کتر کے پرواز نیچے لائی گئی تھی۔ اس لیے تجربہ کاری میں ڈار صاحب مفتاح اسماعیل سے کہیں آگے ہیں۔ ایک بہتر منتظم اور سخت فیصلے کرنے میں بھی مضبوط پس منظر رکھتے ہیں، لیکن اب اکتوبر 2022 تک آتے آتے ایک بڑا فرق یہ آ چکا ہے کہ پہلے کی طرح سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی مخالف پارٹی پی ٹی آئی کی حکومت ہے، جس کے سربراہ عمران خان روزانہ کی بنیاد پر اپنے جلسوں میں پے در پے وار کرتے ہوئے حکومت کو سانس نہیں لینے دے رہے۔
مہنگائی کے ہاتھوں بوکھلائے ہوئے اور بجلی کے بلوں سے بلبلاتے ہوئے عوام غلامی / آزادی اور جمہوریت کے نعروں کے درمیان ڈول رہے ہیں۔ رہی سہی کسر سیلابی آفت اور اس کے بعد پھیلنے والی بیماریوں نے پوری کر دی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس گھمبیر صورتِ حال کی یلغار سے نکلنے کے لیے حکومت کے پاس سب سے بڑا ہتھیار معیشت کی بہتری ہے اور وزیرِ خزانہ کی تبدیلی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کیونکہ اس وقت جارحانہ فیصلوں کا مضبوط تسلسل ہی کمزور معیشت کی گاڑی کو کچے راستے سے دھکیل کر پکی سڑک پہ لا سکتا ہے، جہاں سے آگے کا سفر اور رفتار بعد کے حالات طے کر سکتے ہیں۔
لیکن اس سے پہلے بات ہو رہی تھی مفتاح اسماعیل کی رفو گری کی اور اس تجزیے کی کہ اسی سال یعنی اپریل 2022 میں انہیں معیشت کے بدن پہ کون کون سے زخم ملے۔
زرِ مبادلہ کے کم ہوتے ذخائر
درآمد اور برآمد میں اتنا عدم توازن کہ ایک پلڑا زمین بوسی کرے اور دوسرا آسمان چھونے کی سعی کر رہا ہو، پیٹرول کی قیمت کو بجٹ سے پہلے ڈھائی سو روپے تک لے کر جانے کی سابقہ حکومت اور آئی ایم ایف معاہدے کی سر پہ لٹکتی تلوار، روپے کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے میں گرنے سے روکنے کی کوششوں سے سٹیٹ بینک کا ہاتھ اٹھانا اور مارکیٹ کو قوتوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دینا اور ان تمام منفی اشاریوں سے مرکزی حکومت کی بے اعتنائی۔
مفتاح صاحب نے اپنی سعی کی لیکن نتائج امید افزا نہیں رہے۔ کاوشیں اپنی جگہ لیکن حقیقت یوں ہے کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران زرِ مبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی، ڈالر کی قیمت میں تیز رفتار اضافہ، سالانہ شرح نمو کی رفتار نہایت کم اور افراطِ زر یا عرفِ عام میں مہنگائی کی شرح کم از کم 27 فی صد!
بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں قابو سے باہر، غرض کہ تمام معاشی اشاریے مستقل زمیں بوسی کے سفر پہ گامزن، لہٰذا نیک نیتی اپنی جگہ لیکن چند غیر مناسب فیصلے مفتاح صاحب جیسے اچھی نیت رکھنے والے سے بھی سرزد ہوئے جیسے کہ آئی ایم ایف سے بات چیت کے دوران سخت فیصلوں میں لچک پیدا نہیں کروا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ جو وعدے معاہدے میں کیے، قومی بجٹ 23 -2022 میں اس پہ عمل نہیں کروا سکے۔ تاجروں کے دباؤ میں ٹیکس پہ یو ٹرن لے گئے حالانکہ یہ ان کے مخالفین کا راستہ تھا۔
تو قارئین اور سامعین، اب آئے ہیں نئے رفو گر اسحاق ڈار جن کا پہلا سرکاری عہدہ 1992 میں بورڈ آف انویسٹمنٹ کے وائس چیئرمین کی حیثیت سے بیرونی سرمایہ کاری کے فیصلوں کو ہاتھ میں لینا تھا۔ یہ نواز شریف کے بحیثیت وزیراعظم پہلے دور کی بات ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں سرمایہ کاری بورڈ کے سربراہ یعنی چیئرمین کا عہدہ وفاقی وزیر برائے انڈسٹریز کے پاس ہوتا تھا اور وہ ان دنوں شیخ رشید تھے۔ جی ہاں ہم سب کے جانے پہچانے لال حویلی راولپنڈی والے شیخ رشید، لیکن یہ عہدہ رسمی تھا اور تمام انتظامی اختیار وائس چیئرمین کے پاس ہی ہوتا تھا۔
ماضی کے جھروکوں سے ایک دلچسپ یاد جھانک رہی ہے کہ سرمایہ کاری بورڈ کا عہدہ سنبھالتے ہی اسحاق ڈار نے اسلام آباد کے معاشی صحافیوں کو بلایا اور سرمایہ کاری کے حوالے سے امید افزا اعداد و شمار سامنے رکھے۔ اگلے دن اخباروں کی ہیڈ لائنز یہی فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ کا تخمینہ تھا یعنی آتے ہی چھا جانے والا کام کیا۔
بعد میں وزیر کامرس اور پھر وزیرِ خزانہ کے طور پہ کارکردگی دکھانے والے ڈار سے معیشت کی رفو گری کی امید کچھ ایسی بےجا بھی نہیں۔ معاشی درد کے چارہ گر اپنی چارہ گری دکھانے کی کوشش ضرور کریں گے لیکن رفو گر اور چارہ گر کیا جادو گر بھی ہو سکتے ہیں؟
بحران سے گزرنے والی ہماری معیشت کو گرداب سے نکالنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان پہ عمل کرنے والوں سے امیدیں اگر رفو گری اور چارہ گری سے بڑھ کے جادو گری کی ہونے لگیں تو قصور خوش گمانی کا نہیں، ایمرجنسی حالات سے نکلنے کی خواہش کا ہے۔
مستقبل قریب پہ نظر رکھنے والے پیش گوئیاں کر رہے ہیں کہ ڈار صاحب بینکوں اور منی چینجرز کے علاوہ آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے اور انتہائی سخت شرائط کو نرم کروانے کی کوشش کریں گے۔ حالیہ سیلاب سے 30 ارب ڈالر کا نقصان پاکستان اکیلے نہیں بھر سکتا۔
ممکن ہے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو بات چیت کے ذریعے اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اگلی قسط کی ادائیگی ہنگامی بنیادوں پہ کریں تا کہ ان کے بعد جن دوست ملکوں نے مالی امداد کا وعدہ آئی ایم ایف کی قسط سے مشروط کیا تھا اور جنہوں نے ابھی تک وہ وعدے پورے نہیں کیے، وہ اگر پورے کریں تو زر مبادلہ کے ذخائر کی صورتِ حال بہت بہتر ہو جائے گی جس سے روپے پر دباؤ کم ہو جائے گا، جو معیشت کی مجموعی حالت میں بہتری لائے گا۔
حقائق کے آئینے میں دیکھیں تو مہنگائی کی شرح 27 سے نیچے آئے بھی تو زیادہ سے زیادہ 20 کے آس پاس رہے گی۔ ڈالر کی مصنوعی اڑان کو نیچے آتے آتے بھی دو سو تک ہی بریک لگیں گے۔ پھر بھی جانے کیوں ہم خوش گمانوں کو ڈار کی جادو گری پہ یقین کرنے کا دل کرتا ہے۔
ایک اور کاوش جو اسحاق ڈار کے ذمے ہے وہ مرکز اور صوبوں کے درمیان محاذ آرائی کو ختم کروانا ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی بہتری کی توقع عبث ہے۔
ممکن ہے ڈار صاحب سٹیٹ بینک، کمرشل بینکوں اور منی چینجرز سے فوری مذاکرات شروع کریں اور سٹیٹ بینک اگرچہ آزاد ہو چکا ہے لیکن زرِ مبادلہ کے ذخائر سے ایک دو فی صد مارکیٹ میں پھینک کر روپے کو سہارا دے سکتا ہے۔ آٹھ کمرشل بینکوں نے مبینہ طور پر ڈالر کو مصنوعی عروج بخشا ہے اور منی چینجروں کی سٹہ بازی کی بدولت ڈالر کابل کی جانب مائل بہ پرواز ہے۔ یہ سب جانتے ہیں لیکن کنٹرول کی ڈوری اب ڈار صاحب کے ہاتھ ہے۔ رفو گر سے جادو گری کی امید یوں بھی ہے کہ ابھی رفو گری کی گنجائش موجود ہے۔
خدا نخواستہ ہمارے عہد کے نامور شاعر محترم انور شعور کے شعر جیسی حالت نہیں ہے کہ ؎
رفو گروں نے عجب طبع آزمائی کی
رہی سرے سے نہ گنجائشِ رفو مجھ میں!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔