اقوام متحدہ کو قائم ہوئے 77 سال ہونے جا رہے ہیں۔ اس ناطے 24 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی سالگرہ ہو گی۔ ایک ایسے ادارے کی سالگرہ جس کا وجود بظاہر دنیا میں امن، وقار اور مساوات کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔
جس طرح اقوام متحدہ نے ایک لمبی عمر پائی ہے اسی طرح اس سے جڑا ہوا یہ موضوع بھی طوالت کے بغیر نہیں ہے کہ اقوام متحدہ 77 برسوں میں دنیا کو امن، وقار اور مساوات کے حوالے سے کچھ دینے میں کتنی کامیاب اور کتنا ناکام رہی۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
البتہ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ 51 ملکوں کی رکنیت کے ساتھ 1945 میں آغاز کرنے والا یہ ادارہ آج 193 رکن ممالک کے ساتھ موجود ہے۔ تاہم دنیا میں امن، وقار اور مساوات حقیقی و عملی معنوں میں کہیں بھی کاملیت کے ساتھ وجود نہیں رکھتے۔
آج بھی خود کو مہذب کہلانے والی دنیا میں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کی روایت کا بول بالا ہے۔ یہ چلن اور رواج یک قطبی دنیا میں امریکہ کے زیر قیادت جاری ہے۔
اسی دنیا میں امن، وقار اور مساوات سے عاری ماحول کا ایک سلسلہ روس اور یوکرین کے حوالے سے شروع ہوا ہے۔ اقوام متحدہ، اس کے میثاق اور قراردادوں کی بے بسی کی تازہ اور نئی مثال یہیں جنم لے رہی ہے۔
تقریبا آٹھ ماہ سے جاری جنگ کے دوران روس نے پہلے یوکرین کے چار علاقوں پر اپنی فوجی قوت کے ساتھ قبضہ کیا اور پھر یک طرفہ ریفرنڈم کے ذریعے ان چاروں علاقوں کے اپنے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا ہے۔ روس کے اس اقدام کی اقوام متحدہ نے بھی مذمت کی ہے اور امریکہ و یورپی یونین نے بھی روسی اقدام کو قابل مذمت قرار دیا ہے۔
اگر آپ لطیفہ نہ سمجھیں تو اسرائیل نے بھی فوجی طاقت کی بنیاد پر قبضوں کی مذمت کی ہے۔ وہ اسرائیل جس کا وجود ہی ان جبری اور فوجی قبضوں کے مرہون منت ہے۔
روسی جنگی جارحیت اور قبضے کی مثال اقوام متحدہ کے قیام سے آج تک انوکھی مثال نہیں ہے۔ یہ سارا عرصہ ہی جنگی جارحیتوں اور قبضوں کی طویل سیاست سے عبارت ہے۔ اس لیے اقوم متحدہ کے ماہ وسال کی طرح اس کا جائزہ لینا بھی ایک لمبا اور صبر آزما کام ہے۔
البتہ حالیہ پانچ چھ برسوں کا ذکر روسی واردات کے تناظر میں قدرے آسان بھی ہے اور مختصر بھی۔
ان پانچ چھ برسوں پر نظر ڈالی جائے تو روس اور پوتن کے علاوہ کئی دیگر ملک اور ان کی قیادت اسی کریہہ کردار کے ساتھ سامنے کھڑی نظر آتی ہے۔ اقوام متحدہ کا امن، وقار اور مساوات والا میثاق ان کے پاوں تلے پوری حقارت کے ساتھ کچلا ہوا اور اقوام متحدہ کی ہر قرارداد ان کے پاؤں تلے انسانی و اخلاقی قدروں کی طرح پامال دکھائی دیتی ہے۔
اس تناظر اور ترتیب میں روس کی جگہ آخری صف میں بنتی ہے۔
یہ چھ دسمبر 2017 کا منظر ہے۔ چھ دسمبر 1992 کے دن کا پرتو۔ جب 2017 سے ٹھیک 25 سال پہلے نریندر مودی کی کٹر حامی آر ایس ایس نے مسلمانوں کی قدیمی بابری مسجد کو شہید کیا تھا۔ یہ ایک مسجد کا عہد تمام ہونے کا ہی دن نہیں ہے بلکہ یہ دن بعد ازاں انڈیا میں مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی سال کے لیے اقتدار میں جگہ پانے کا جواز بھی بنا۔
اسی کی بدولت آج بھی مودی سرکار انڈیا میں مقابلتاً زیادہ جبر اور زور کے ساتھ موجود ہے کہ بابری مسجد کو گرانے والے زور آور انتہا پسند ہی مودی سرکار کو بنانے والے ہیں۔
بات چھ دسمبر 2017 سے شروع ہوئی تھی۔ اسی روز امریکہ میں بری حکمرانی اور قیادت سے شہرت پانے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ میثاق اور قرادادوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا۔
امریکہ اور اس کی قیادت نے یہ فیصلہ روسی صدر ولادی میر پوتن کے مقابلے میں زیادہ ڈھٹائی اور بےشرمی کے ساتھ کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لے کر جنرل اسمبلی تک ہر جگہ اس امریکی فیصلے کی مخالفت اور مذمت کی گئی۔ مگر امریکہ نے 14مئی 2018 کو اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر دیا۔
یہ اقدام عین اس وقت کیا گیا جب مظلوم فلسطینی اپنی سرزمین پر ناجائز اسرائیلی قبضے کے 70 سال مکمل ہوتے دیکھ رہے تھے اور اگلے روز یوم نکبہ منانے والے تھے۔ گویا امریکہ یہ اقدام ان مظلوم فلسطینیوں کے لیے ایک اور نکبہ بن کر آیا۔
امریکہ کی طرف سے یہ اقدام اس کے باوجود کیا گیا کہ اقوام متحدہ کے میثاق ہی کی نہیں اس امن پراسس اور فلسطینیوں کے ساتھ اس دیرینہ مسئلے کے دو ریاستی حل کے وعدے کے بھی خلاف تھا جس میں خود امریکہ بھی اہم کردار کا حامل رہا تھا۔
امریکی اقدام امن عمل پر بھی کاری وار تھا۔ یہ خطے میں بدامنی اور جدل کے ایک اور راستے کھولنے کا سبب بن سکتا تھا مگر امریکہ نے اپنا سفارت خانہ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر دیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی، میثاق، فلسطین پر قراردادیں، سیکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں سمیت کوئی بھی اس کی اجازت نہ دیتا تھا لیکن امریکہ اور اس کے صدر ہی نہیں، امریکی کانگریس سمیت اس کے سب ادارے ایک صفحے پر تھے۔
اسرائیل جس نے خود اپنا دارالحکومت تل ابیب کو قرار دے رکھا ہے، ابھی تک اسے بھی ہمت نہیں ہو سکی کہ وہ اپنا دارالحکومت بیت المقدس کو بنائے۔ اس پر ایسی عنایات اس کے باوجود کہ مقبوضہ بیت المقدس کا عالمی اداروں کے نزدیک ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
اس کے باوجود کہ یہ روایتی طور پر مسلمانوں کا مرکز ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اسے اپنا قبلہ اول قرار دیتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ بیت المقدس میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کی زبان عربی ہے۔ مگر امریکہ نے سب کچھ روند ڈالا۔ کیا اس کا مقصد اسرائیل کو ایک نئی ہلہ شیری دینا تھا؟
اگلے ہی سال 5 اگست 2019 کو انڈیا اور انڈیا کے وزیراعظم مودی کا ایک بڑا جارحانہ اقدام مقبوضہ کشمیر میں نظر آیا۔ انڈیا نے اقوام متحدہ کے میثاق اور قراردادوں کو ہی نہیں خود اپنے دستور کی بھی پروا نہ کی اور اپنے آئین کے آرٹیکل 370 میں کشمیر کو دیے گئے خصوصی سٹیٹس کو ختم کر دیا۔ ایک مسلمہ متنازع خطے کے لیے انڈیا کا یکطرفہ اقدام تھا۔
انڈین اقدام کسی قانونی جواز یا نسلی، لسانی یا نظریاتی ومذہبی قربت وہم آہنگی بنیاد پر ہر گز نہ تھا۔ خالصتاً طاقت کے زور پر قبضے کی نیت سے اور ناجائز بنیادوں پر کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے میثاق اور قراردادوں کی دھجیاں انڈیا نے اب اس انداز سے بھی اڑائی تھیں مگر پوری دنیا بشمول پاکستان کے محض تماشائی تھی۔
باوجود اس کے کہ کشمیر کے رہنے والے مذہبی طور پر انڈیا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نہ نسلی اعتبار سے اور نہ ہی لسانی حوالے سے انڈیا کے ساتھ اشتراک کے حامل ہیں۔ اہل کشمیر کا انڈیا کے ساتھ ایک ہی تعلق ہے کہ وہ پچھلے 75 برسوں سے انڈین تسلط کے خلاف جانیں قربان کر رہے ہیں۔ آج بھی انڈیا کی چھ سے سات لاکھ فوج اس جبری قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے کشمیر میں موجود ہے۔
اسی میدان میں اب برطانیہ بہادر نے بھی قدم رکھا ہے۔ اسے مادر جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اس کا دعویٰ بھی انسانیت اور اصولوں کی سربلندی کے علاوہ انسانی حقوق و جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ کا ہے۔ مگر برطانوی وزیراعظم لز ٹرس نے بھی اپنے ملک کا سفارت خانہ تل ابیب سے امریکی پیروی میں مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس ناطے یہ اسرائیلی ظلم و جبر کو پسندیدگی کی سند دینے کے مترادف ہی نہیں اسرائیل کو بدامنی کے مرکز کے طور پر مشرق وسطیٰ میں موجود رکھنے کی امریکی کوشش میں حصہ داری بھی ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں بد امنی رہے اور اس بدامنی کا خوف دلا دلا کر عربوں کا تیل نچوڑا جاتا رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ روس کی طرف سے یوکرین کے چار علاقوں دونیتسک، لہانسک، خیرسن زاپوریژا پر بذریعہ طاقت قبضے اور بعد ازاں وہاں ریفرنڈم کرا کے انہیں ہمیشہ کے لیے اپنا بنانے کا اعلان کرنے کی اسرائیل نے بھی مذمت کی ہے۔ قبل اس کے کہ اس بارے میں اسرائیلی مذمت کے جواز یا عدم جواز پر بات کی جائے ان علاقوں پر ایک نظر ڈال لی جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اتفاق سے یہ وہ علاقے ہیں جن کا مجموعی رقبہ ایک ہزار سے 11 سو مربع کلومیٹر تک بنتا ہے۔ جن میں روسی زبان کثرت سے بولی جاتی ہے۔ پہلا علاقہ دونیتسک کا ہے۔ یہ 358 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس کی آبادی نو لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس میں رہنے والے 90 فیصد شہریوں نے 1994 میں کرائے گئے ایک ریفرنڈم میں روسی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
روس نے بھی فوجی قبضے کے بعد اسی روسی زبان اور بعض سطحوں پر نسلی حوالوں کو بنیاد بنا کر اپنے ساتھ ملانے کا اعلان کیا ہے۔
لہانسک دوسرا یوکرینی علاقہ ہے جسے پہلے فوجی قوت کے بل پر یوکرین سے چھینا گیا پھر ریفرنڈم کرا کے ساتھ ملا لیا۔ لہانسک کا رقبہ 257 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے ہاں بولی جانے والی سرکاری زبان بھی روسی ہے۔
خیرسن تیسرا مقبوضہ یوکرینی علاقہ ہے۔ یہ 135مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں 45 فیصد سے زیادہ لوگ روسی زبان بولتے ہیں۔ 19 فیصد یوکرینی بولتے ہیں۔ باقی لوگ دیگر زبانیں بولتے ہیں۔
زاپوریژا چوتھا مقبوضہ علاقہ ہے جسے روس نے اپنے ساتھ ملایا ہے۔ اس کا رقبہ 334 مربع کلومیٹر ہے۔ اس میں بھی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان روسی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود کہ یہاں رہنے والے روس کے ساتھ قربت کے کئی حوالے رکھتے ہیں یہ جواز نہیں ہو سکتا کہ انہیں ظلم و جبر کے ساتھ روس اپنے زیر قبضہ رکھے۔
اس طرح کا سلسلہ چلا تو پھر دنیا کا کوئی خطہ اور کوئی قوم طاقتوروں کے قبضے اور تسلط سے محفوظ نہ رہ سکے گی۔
اسرائیل نے چھ ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقہ پر پھیلے فلسطین پر قبضہ کر رکھا ہے اور فلسطین پر اسرائیلی قبضہ یوکرینیوں کے مقبوضہ علاقے سے پانچ چھ گنا زیادہ ہے۔ جبکہ فلسطینیوں کی زبان عبرانی نہیں عربی ہے۔ یہ نسلاً اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ان کی تاریخ مختلف ہے۔
فلسطینی اسی خطے میں صدیوں سے رہنے والے ہیں جبکہ اسرائیل کی آبادی کی غالب اکثریت دنیا کے دوسرے خطوں سے لا کر یہاں بسائی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر روس کو یوکرین کے چار علاقوں پر ریفرنڈم کے بعد بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ انہیں ساتھ ملائے تو اسرائیل کے فلسطین و عرب علاقوں پر مسلسل قبضے کا کیا جواز ہے۔
کیوں عالمی طاقتیں اتنی ہی شدت سے اسرائیل کا راستہ روکنے اور مقبوضہ علاقوں کو اسرائیلی قبضے سے چھڑانے کے لیے یوکرینیوں کی طرح فلسطینیوں کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ فلسطینی مظلوم ہونے کے باوجود قابل توجہ نہیں اور اسرائیل ظالم، جارح اور قابض ہونے کے باوجود امریکہ و یورپ کا چہیتا محبوب ہے۔
کیا اقوام متحدہ کو بھی اپنے میثاق پر اصرار کرنا زیب دیتا ہے کہ وہ صرف روس کی تو مذمت کرے لیکن اسرائیل اور انڈیا ہی نہیں بیت المقدس میں سفارت خانہ کھولنے پر امریکہ سے در گذر جاری رکھے۔ روس، اسرائیل، انڈیا اور امریکہ ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ ان سب کو قبضوں اور جنگوں کی سیاست سے روکنا اقوام متحدہ کے میثاق اور وجود کا تقاضا ہے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو اقوام متحدہ محض ہر سال مزید بوڑھی ہو کر مزید کمزور ہوتی جائے گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔