یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے نیچے کلک کریں
مشہور محاورہ ہے کہ سچ کسی بھی جنگ میں ہمیشہ پہلا ہدف بنتا ہے۔ اس کے عملی مظاہرہ کھلی آنکھوں سے دیکھے جا رہے ہیں۔ یوکرین میں کیا ہو رہا ہے، اس سے متعلق حقیقت جاننا انتہائی مشکل امر ہے۔
’رشیا ٹوڈے‘ ماسکو نواز موقف پیش کر رہا ہے جبکہ ’بی بی سی‘ برطانوی وزیر دفاع کی زبان میں یوکرین سے متعلق جو باتیں بیان کی جا رہی ہیں انہیں سن کر لگتا ہے کہ سب ٹھیک نہیں ہو رہا ہے۔ اس وقت میدان جنگ میں قابل اعتبار ذرائع بہت کم، یا پھر معدوم دکھائی دیتے ہیں۔
یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت نے بین الاقوامی قانون جنگ کی جس طرح دھجیاں بکھیری ہیں اس کی مثالیں روزانہ ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا کے توسط سے دنیا تک پہنچ رہی ہیں۔ دوسری جانب اس جنگ نے امریکہ، یورپ اور مغربی دنیا کے دہرے معیار کو بھی آشکار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
میدان جنگ سے رپورٹنگ کرنے والے جنگی وقائع نگار ہوں یا پھر مغربی دنیا کے تجزیہ کار، دونوں ہی جنگ کی ہولناکی بیان کرتے ہوئے اس کا نشانہ بننے والوں کو بطور ’انسان‘ نہیں بلکہ ’سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والے یورپی عوام‘ کے طور پر پیش کر کے کھلی منافقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
سی این این جیسے چینل پر تقریباً روہانسے انداز میں ایک تجزیہ کار روسی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یوکرین کوئی تیسری دنیا کا غیر ترقی یافتہ ملک نہیں ہے، جسے تر نوالہ سمجھ کر جنگ مسلط کی جا رہی ہے،‘ گویا موصوف یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ تیسری دنیا میں گوشت پوست کے انسان نہیں رہتے، ان کی بھوری یا سیاہ رنگت کی وجہ سے انہیں تہہ تیغ کرنا کوئی بری بات نہیں۔
یہی مغربی ذرائع ابلاغ لائیو ٹی وی شوز میں یوکرینی عوام کو پٹرول بم سمیت دوسرا اسلحہ تیار کرنے کے طریقے سکھا رہے ہیں۔ یوکرینی عوام کو بہاردی اور دلیری کے تمام ممکنہ القابات سے نوازتے ہوئے انہیں روسی فوج کے ’غاصبانہ قبضے‘ کے خلاف مزاحمت کا درس دیا جا رہا ہے اور جب ان کے اسی معیار کو اپنانے ہوئے کشمیری یا فلسطینی علی الترتیب بھارتی واسرائیلی تسلط کے خلاف اپنا حق استعمال کرتے ہیں تو انہیں دہشت گرد، جارح اور نہ جانے کیا کچھ قرار دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس جنگ نے دنیا کو گوبل ویلج کی عملی شکل دینے والے سوشل میڈیا کی حقیقت بھی بے نقاب کی ہے۔ فلسطینی مزاحمت کاروں یا کشمیری حریت پسندوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی پاداش میں سوشل میڈیا پر خود ساختہ اور معتصب کمیونٹی سٹینڈرڈ کو جتنی جلدی روبہ عمل لایا جاتا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
اسرائیلی ٹینک کے سامنے ہاتھ میں پتھر اٹھائے فلسطینی بچے کی تصویر کو اپنی ڈی پی بنا کر دکھائیں تو اگلے لمحے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم آپ پر کون کون سی فرد جرم عائد کرتے ہیں، اس کا مزا کسی بھی وقت چکھا جا سکتا ہے۔
یوکرین کی جنگ میں ٹینکوں کی ایک قطار کے سامنے کھڑے مجذوب یورپی شہری پر سوشل میڈیا کے ’کی بورڈ واریئرز‘ نے تعریف کے وہ ڈونگرے برسائے کہ لگتا تھا اگلے لمحے جرات وبہادری کے تمام یورپی اعزازات اس ’مزاحمت کار‘ کے قدموں پر نچھاور کر دیے جائیں گے۔ یہاں سوشل میڈیا کے تمام کیمونٹی سٹینڈرڈز ’صم بکم عمی‘ کی عملی تفسیر بنے دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی جارحیت کا شکار بننے والے کسی مظلوم فلسطینی کی مختصر دورانیے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر آپ کو کرونا کے دونوں کا سماجی فاصلہ یاد کرواتے ہوئے ’طویل مدتی قرنطینہ‘ پر بھیج دیا جائے گا۔
کسی بھی مسلم کاز کی ترویج کے لیے انفارمیشن سپر ہائے وے پر اپنا ویب پیچ لانچ کریں اور اگلے ہی روز اس ویب سائٹ کی پورنو گرافک پورٹل کی طرف روٹنگ پر آپ دم بخود رہ جائیں گے۔
یورپی عوام کے بالا تر انسان ہونے کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے ایلون مسک ان کے لیے فری انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی کو بناتے ہیں۔ گوگل بادشاہ یوکرینی عوام کے لیے اپنے نقشوں کی رسائی کو بہتر بنانے کے جتن کرتے دکھائی دیں گے۔
ماضی میں اپنے دوہرے معیار کا ثبوت دیتے ہوئے یہی گوگل فلسطین کو اپنے نقشوں سے غائب کر کے بزعم خود عالمی گاؤں کا متعصب نمبردار بننے کا ثبوت دے چکا ہے۔ کشمیریوں کے لیے بھارت کی نام نہاد جمہوریت انٹرنیٹ بند کرتی ہے تو انفارمیشن سپر ہائی وے کے کسی ’لیجنڈ‘ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
یوکرین ایشو نے مغربی دنیا کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور اس کے صہیونی اتحادیوں کی منافقت کا پردہ بھی چاک کیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین سمیت اسرائیل بقلم خود یوکرین کے علاقائی استحکام اور آزادی کو مقدس خیال کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ستم ظریفی دیکھئے کہ شرم سے عاری تل ابیب حکومت یوکرین جنگ کے آغاز پر اعلان کرتی ہے کہ ’اسرائیل، یوکرین کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کی حمایت کرتا ہے۔‘ یہ منافقت اور کھلا تضاد عالمی انصاف کے اداروں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔
امریکہ کی قیادت میں مغربی دنیا یوکرین پر حملے کی صورت میں ماسکو کے خلاف اپاہج بنا دینے والی پابندیاں لگا رہی ہے تو ایسے میں فلسطینی یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے یہ بڑے ممالک ایسے ہی اقدامات اسرائیلی استعماریت کے خلاف کیوں نہیں اٹھاتے؟
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام ملک اس اصول کا اطلاق فلسطین یا فلسطینیوں پر کب کریں گے؟ کیا مقبوضہ علاقوں میں بسنے والوں کو اپنے ملک کی سالمیت اور خود مختاری پیاری نہیں؟ اسرائیل نے اپنی ریاست کی حدود کا آج تک اعلان نہیں کیا کیونکہ صہیونی نظریے کے بانیوں کی سوچ کے مطابق اسرائیل کو صرف فلسطین کے اندر ہی نہیں بلکہ ہمسایہ ملکوں تک اپنی سرحدوں کو وسعت دینا ہے۔
یوکرین میں اسرائیلی مداخلت زبانی جمع خرچ سے آگے نکل چکی ہے۔ اسرائیل نے اس بات پر کبھی اتنا اودھم نہیں مچایا کہ کون کس کو ہتھیار بیچ رہا ہے لیکن اب یہ بات صہیونی ریاست کے لیے ڈروانا خواب بنتی جا رہی ہے۔
یوکرین کی روس نواز علیحدگی پسندوں کے خلاف جنگ میں نیو نازی آزو بٹالین اگلے محاذوں پر اسرائیلی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ’داد شجاعت‘ دے رہی ہے۔ یوکرین کی فوج کے شانہ بشانہ ملک کے مشرقی علاقے میں لڑنے والی آزو بٹالین اپنی بربریت کی وجہ سے خاصی بدنام ہے۔ یہ ان کئی رضا کار بریگیڈیز میں شامل ہے جو یوکرینی فوج کے ساتھ مل کر روس کے خلاف نبرد آزما ہیں۔
ایوان اقتدار میں کئی حلقے اس تشویش کا اظہار کرتے دیکھے جا رہے ہیں کہ علیحدگی پسندوں کے خلاف جنگ ختم ہونے پر یوکرین حکومت اور ریاست کے لئے انتہائی دائیں بازو کی آزو بٹالین کے یہ متشدد جنگجو وبال جان بن جائیں گے۔
آزو بٹالین کا نیو نازی تعلیمات کی سمت جھکاؤ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ متعدد آزو بٹالین کے گوریلا فائٹرز یہود مخالف ہیں۔ وہ اوڈلف ہٹلر کے کارناموں کے متعرف اور ہولو کاسٹ کے انکاری ہیں۔ اسرائیل امن کے پرچارکوں اور جنگ مخالفوں کے مقابلے میں ان ملکوں کے کراہت آمیز خیالات کو خوش دلی سے قبول کر لیتا ہے جنہیں وہ اسلحہ فروخت کرتا ہے۔
ان سطورمیں کسی ایک فریق کی طرف داری مقصود نہیں اور نہ ہی اس بات کا تعین کہ پوتن اور بائیڈن میں کون اچھا ہے اور کون برا؟ یہ کالم نگار دونوں میں کسی کا ہمنوا نہیں۔ اسے امن سے سروکار ہے لیکن وائٹ ہاؤس اور کریملن سے امن کی منزل تاحال ہزاروں میل دور دکھائی دیتی ہے۔
ادھر فلسطینی مایوسی اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ مغربی دنیا نے یوکرین کے لوگوں کے لئے جس ’رحمدلی‘ کا مظاہرہ کیا ہے ایسے ہی جذبات ترقی یافتہ دنیا کے دل میں فلسطینیوں کے علاقائی حقوق اور سالمیت کے لیے کب موجزن ہوں گے؟
اقوام متحدہ اور تنظیم معاہدہ شمالی اوقیانوس (نیٹو) انسانی حقوق، خود مختاری، سرحدوں کے احترام سے متعلق جب تک سب کے لیے یکساں معیار مقرر نہیں کرتے اس وقت تک طاقتور ریاستیں دوسروں کے علاقے غصب کرنے کے لیے بلا خوف حملوں کا سلسلہ جاری رکھیں گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔