اس تحریر کو مصنف کی آواز میں سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے
متروکہ وقف املاک بورڈ اور شیخ رشید کے درمیان لال حویلی کیس ایک بار پھر خبروں میں ہے۔
شیخ رشید جب حکومت میں نہیں ہوتے تو لال حویلی کی ملکیت کا کیس ہمیشہ خبروں میں رہتا ہے اور جب وہ حکومت میں ہوتے ہیں تو یہ کیس کہیں دفن ہو جاتا ہے۔
لال حویلی سے جڑی بیرسٹر دھن راج سہگل اور ایک مسلمان رقاصہ بدھا بائی کی داستانِ محبت پہلی بار شیخ رشید ہی اپنی کتاب ’فرزندِ پاکستان‘ میں منظر عام پر لائے تھے لیکن ہنوز اس کے کئی گوشے چھپے ہوئے ہیں، بالخصوص یہ بیرسٹر دھن راج سہگل کون تھے؟
اگر دونوں کی محبت اتنی ہی لازوال تھی تو پھر بدھا بائی ان کے ساتھ ہندوستان کیوں نہیں گئیں؟
بیرسٹر دھن راج سہگل جیسا معروف آدمی ہندوستان میں جا کر تاریخ کے صفحات سے کیوں گم ہے؟
بدھا بائی گئیں کدھر؟ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟
ایسے بہت سے سوالات کے جوابات کی کھوج ایک عرصے سے رہی ہے۔ جب تک ان سوالات کے جوابات نہیں مل جاتے کہانی مکمل نہیں ہوتی۔
شیخ رشید کی بیان کی گئی کہانی کیا کہتی ہے؟
سب سے پہلے آتے ہیں شیخ رشید احمد کی بیان کی ہوئی کہانی کی طرف جس کے مطابق بیرسٹر دھن راج سہگل جہلم سے تعلق رکھنے والے ایک امیر فرد کرپا رام سہگل کے چشم و چراغ تھے۔
بیرسٹر دھن راج سہگل سیالکوٹ میں ایک شادی میں شرکت کے لیے کیا گئے کہ وہاں ایک مسلمان رقاصہ بدھا بائی کی زلفوں کے اسیر ہو گئے۔
دونوں میں عہد و پیمان ہوئے۔ بیرسٹر دھن راج بدھا بائی کو لے کر راولپنڈی آ گئے جہاں بوہڑ بازار میں انہوں نے بدھا بائی کی محبت میں یہ خوبصورت حویلی بنائی جو سہگل حویلی کے نام سے جانی جانے لگی۔
دھن راج نے اس حویلی کی تعمیر میں کشمیری طرز تعمیر کو مقدم رکھا، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ نئے جوڑے کو سری نگر بہت پسند تھا اور ہنی مون بھی انہوں نے وہیں منایا تھا۔
دھن راج نے بدھا بائی کے لیے ایک مسجد اور اپنے لیے مندر بھی ساتھ ہی بنوایا تھا، جو آج بھی موجود ہیں۔
سفر کے لیے ان کے پاس 1938ماڈل کی آسٹن کار تھی جس کے رم لکڑی کے تھے۔ اسی کار پر دھن راج اور بدھا بائی مری اور کشمیر کی سیر کو جایا کرتے تھے۔
لیکن پھر تقسیم کے دوران شہر میں ہونے والی قتل و غارت کی وجہ سے دھن راج ہندوستان چلے گئے اور بدھا بائی یہیں رہ گئیں۔
چونکہ دونوں کی شادی قانونی نہیں تھی، اس لیے تقسیم کے بعد جب کیس چلا تو جج نے بدھا بائی سے کہا کہ انہیں خود کو ہندو ڈکلیئر کرنا ہو گا یا دھن راج کا مسلمان ہونا ثابت کرنا ہو گا، تبھی حویلی ان کی ملکیت ہو سکتی ہے۔
لیکن اس موقعے پر بدھا بائی نے کسی لالچ اور طمع کو خاطر میں لائے بغیر کہا:
’ہم ہر ایک شے میں برابر کے حصہ دار تھے سوائے مذہب کے۔‘
اس وجہ سے جج نے حویلی وقف متروکہ املاک کو دے دی اور کہا کہ جب تک بدھا بائی یہاں رہنا چاہیں، وہ اس کے تین کمرے استعمال کر سکتی ہیں۔
آس پاس کے لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ بدھا کے پاس بہت مال ہے جو انہوں نے حویلی میں چھپا رکھا ہے۔ بدھا بائی نے بھی خوف سے اپنے بھائی کو ساتھ رکھ لیا تھا لیکن ایک روز رات کو ان کے بھائی کا قتل ہو گیا۔
قتل کے چند روز بعد بدھا بائی بھی حویلی سے کہیں چلی گئیں، جس کے بعد کچھ پتہ نہیں ماسوائے اس کے کہ ایک روز کشمیر سے ایک افسر حویلی دیکھنے آئے اور بتایا کہ بدھا بائی ان کی ماں تھیں۔
شیخ رشید کے بقول: ’ہم اس سے مزید جاننا چاہتے تھے لیکن وہ غائب ہو گیا۔‘
شیخ رشید نے لال حویلی ایک کشمیری خاندان سے ساڑھے پانچ لاکھ میں خرید کر اسے اپنا عوامی مرکز بنا لیا۔
لال حویلی سے انہیں بے پناہ محبت ہے، ہو بھی کیوں نہ کہ لال حویلی نے شیخ رشید کو ایک پہچان عطا کی ہے۔ کم و بیش چالیس سال سے وہ اس شہر کے اہم سیاسی مراکز میں سے ایک ہے۔
کہانی دراصل ہے کیا؟
یہ کہنا کہ دھن راج سہگل کا تعلق جہلم سے تھا، اس کی تصدیق کے لیے کوئی شواہد دستیاب نہیں ہیں۔
انجم سلطان شہباز کی لکھی ہوئی ’تاریخِ جہلم‘ ہر حوالے سے ایک ضخیم کتاب ہے جس میں جہلم سے تعلق رکھنے والے تمام خاندانوں اور شخصیات کا تذکرہ موجود ہے لیکن حیرت ہے کہ اس زمانے میں بیرسٹر دھن راج جیسے اہم شخص، جن کی امارت کے چرچے پنڈی تک تھے، انہیں جہلم میں کوئی کیوں نہیں جانتا تھا؟
اور اگر راولپنڈی سے ان کا تعلق تھا تو راولپنڈی کے تاریخی شواہد میں بھی بیرسٹر دھن راج یا ان کے والد کرپا رام کا ذکر کیوں موجود نہیں ہے؟
ان سوالات کا جواب لینے کے لیے راولپنڈی کے پرانے ریکارڈ کی تلاش میں کمشنر، ڈپٹی کمشنر، سیٹلمنٹ برانچ، کچہری، سٹی پٹوار سرکل اور متروکہ وقف املاک بورڈ کے کئی چکر لگائے کہ شاید کہیں سے کوئی ریکارڈ ہاتھ لگ جائے کہ یہ حویلی کس سال بنی تھی؟ اس کا پہلا مالک کون تھا؟ لیکن کہیں سے کوئی ریکارڈ نہیں مل سکا۔
شاید انتظامیہ کے پاس لال حویلی کی فائل موجود نہیں یا پھر وہ اس فائل کی حساسیت کے پیش نظر اسے خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان سوالات کا جواب مجھے بہت عرصے درپیش رہا تاوقتیکہ میرا رابطہ دہلی میں بیرسٹر دھن راج سہگل کے خاندان کے ایک فرد رویندراین سہگل سے ہوا۔
رویندر سہگل رشتے میں بیرسٹر دھن راج سہگل کے پوتے لگتے ہیں کیوں کہ رویندر کے والد اور دھن راج سہگل آپس میں چچا زاد بھائی تھے۔
رویندر سہگل نے بتایا کہ ان کے خاندان کا شمار راولپنڈی کے چند متمول خاندانوں میں ہوتا تھا، جن کا وسیع کاروبار اور جائیدادیں تھیں۔
’ہمارے پڑدادا کا نام بودھ راج سہگل تھا جن کے دو بیٹے تلسی شاہ سہگل اور بیرسٹر دھن راج سہگل تھے۔ خاندان کی مشترکہ ملکیت بودھ راج حویلی آج بھی راولپنڈی میں موجود ہے۔‘
’دھن راج سہگل نے شروع سے ہی رنگین مزاج طبیعت پائی تھی۔ ناچ گانے اور شراب کے رسیا تھے۔ ولایت سے بیرسٹری کر کے آئے تھے اس لیے خاندانی روایات کا پاس بھی نہیں کرتے تھے۔ قسمت کے دھنی تھے اور لوگ انہیں دھنئا سیٹھ یا جج صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔‘
’انہوں نے دہلی اور یورپ میں بھی جائیدادیں بنا رکھی تھیں۔ ہمارا خاندان قدامت پسند تھا اس لیے وہ دھن راج کے چال چلن کو پسند نہیں کرتا تھا۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ بیرسٹر صاحب نے ایک مسلمان رقاصہ سے شادی کر لی ہے۔
’بیرسٹر صاحب نے اس کی محبت میں بوہڑ بازار میں حویلی بنائی جس میں ساگوان کی لکڑی استعمال کی گئی تھی۔ کشیدہ کاری میں چار من سونے، چاندی اور قیمتی پتھروں کا استعمال کیا گیا۔ پھر ساتھ کی جائیدادیں بھی خرید کر وہاں مندر بنایا۔
’انہوں نے کوشش کی کہ وہ دنیا بھر کی چیزیں بدھا بائی کے قدموں میں نچھاور کر دیں۔ وہ بیلجیئم سے اس کے لیے ہیروں کا ہار بھی لے کر آئے تھے۔‘
رویندر این سہگل نے مزید بتایا کہ ’تقسیم کے وقت ہمارا خاندان چارٹرڈ طیارے میں دہلی آ گیا جس میں ہمارے نوکر اور کتے بلیاں بھی شامل تھے۔ دھن راج سہگل بھی ساتھ آ گئے لیکن بدھا بائی نہیں آئی۔‘
’دھن راج کا خیال تھا کہ وہ پاکستان واپس چلے جائیں گے لیکن حالات موافق نہیں تھے۔
’ادھر بدھا بائی بھی اپنی دولت کی وجہ سے مسلسل خطرات میں تھی۔ اس نے اپنی بہن جو راولپنڈی میں رہتی تھی، اسے اپنے ساتھ رکھ لیا اور اپنے ایک سوتیلے بھائی کو بھی سیالکوٹ سے بلا لیا۔
’بدھا کی بہن نے ایک نو مسلم شیخ ہیرا سنگھ سیٹھی سے شادی کی ہوئی تھی جو کہ ایک مالدار شخص تھا۔ ہیرا سنگھ تقسیم کے وقت اپنی دولت اور جان بچانے کے لیے مسلمان ہو گیا تھا۔ ایک دن اسے مسلمانوں کے ایک جتھے نے گھیر لیا اور مارنے لگے تھے کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہو کر بدھا کی بہن سے شادی کر لی اور شیخ ہیرا کہلانے لگا۔
’بدھا بائی کے بھائی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں تھا اس لیے اس نے اپنی بہن اور بہنوئی ہیرا شیخ کو بھی حویلی میں رکھ لیا۔ ہیرا شیخ کے پاس کافی لوگوں کی جائیدادوں کے کاغذات تھے جو اسے جاتے وقت امانتاً دے گئے تھے۔
’ہیرا شیخ نے وہ جائیدادیں ان مہاجرین کو فروخت کرنا شروع کر دیں جو انڈیا سے آ رہے تھے۔ اس نے اس پیسے کا سونا خریدا اور جنوری 1950 میں انڈیا چلا گیا۔ اس نے وہاں جا کر بیرسٹر دھن راج سے سہگل حویلی اور دوسری جائیدادوں کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی۔‘
’دھن راج نے سہگل حویلی کے علاوہ تمام جائیدادیں فروخت کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی اور مؤقف اختیار کیا کہ سہگل حویلی اور سونا اس کی بیوی بدھا اور اس کے بیٹے کی ملکیت ہے جو اس کے پیچھے پیدا ہوا تھا۔‘
’ہیرا شیخ نے بتایا کہ بدھا اب کسی اور مرد کے ساتھ رہ رہی ہے جس سے اس کا بیٹا بھی ہونے والا ہے مگر دھن راج کو یقین نہیں آیا۔‘
’ہیرا شیخ کو معلوم ہوا کہ راولپنڈی میں اس کے خلاف فراڈ کے کئی مقدمات درج ہو چکے ہیں، اس لیے اس نے اپنی بیوی یعنی بدھا کی بہن کو راولپنڈی بھیج دیا اور خود دوبارہ سکھ بن گیا۔
’بدھا بائی کی بہن واپس اس کے پاس راولپنڈی آ گئی اور اس نے ہیرا شیخ کے بیٹے کو جنم دیا۔ جلد ہی دونوں بہنوں میں لڑائی ہو گئی اور بدھا نے اپنی بہن اور اس کے بیٹے کو حویلی سے نکال دیا۔ جس پر بہن نے کیس کر دیا کہ لال حویلی ان کے خاوند کی ہے جو مسلمان ہو چکا ہے (ہیرا شیخ) اس لیے یہ مجھے اور میرے بیٹے کو الاٹ کی جائے۔ اس نے عدالت میں یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ چونکہ دھن راج اور بدھا کی شادی غیر قانونی ہے اس لیے یہ بچہ بھی غیر قانونی ہے جو دھن راج کی جائیداد کا وارث نہیں ہو سکتا۔‘
’جواباً بدھا نے کہا کہ میری بہن کا خاوند ہندو ہے جو بھارت میں دوبارہ سکھ بن کر وہاں کی شہریت لے چکا ہے اور پاکستان میں کئی کیسز میں مطلوب ہے۔‘
اس کیس کی تفصیلات جاننے کے لیے مجھے راولپنڈی کچہری سے اتنا ہی معلوم ہو سکا کہ لال حویلی چار اپریل 1964 کو بدھا بائی ولد نبی الدین کو الاٹ ہوئی۔
اس کا مطلب ہے کہ اس وقت دھن راج سہگل سے ہونے والے بدھا بائی کے بیٹے کی عمر کم وبیش 16 سال ہو گی اور تقریباً اتنی ہی عمر اس کی بہن کے بیٹے کی بھی ہو گی، لیکن یہ سارے کردار کدھر گم ہیں؟
دھن راج اور بدھا بائی کی کہانی میں نیا موڑ؟
رویندر این سہگل کے مطابق: ’ہیرا شیخ جب دہلی جا کر دھن راج سے اس کی حویلی کے کاغذات مانگ رہا تھا اور دھن راج کو یہ باور کرا رہا تھا کہ بدھا بائی نے پیچھے ایک مسلمان سے شادی کر لی ہے تو دھن راج کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
’وہ فوراً راولپنڈی آیا جہاں وہ بدھا بائی اور اپنے بیٹے سے ملا تو اسے معلوم ہوا کہ ہیرا سنگھ نے اس کی جائیداد ہتھیانے کے لیے یہ فرضی کہانی گھڑی تھی۔ بدھا آج بھی اسی کی تھی بس فرق صرف یہ تھا کہ وہ اس کے ساتھ انڈیا نہیں جانا چاہتی تھی۔ دھن راج نے بدھا بائی کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا۔
دھن راج واپس دہلی چلا گیا۔ ادھر بدھا بائی پر کئی سرد گرم موسم گزرے۔ اس کا بھائی قتل ہو گیا۔ اس کی بہن اس کی جائیداد ہتھیانے کے چکر میں تھی۔ محلے دار بھی سمجھتے تھے کہ اس کے پاس کوئی خفیہ خزانہ ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ بھی ماری جاتی، وہ ایک رات اپنے بیٹے کو لے کر ایسی غائب ہوئی کہ تاریخ کے صفحات پر اس کا کوئی نشان نہیں ملتا۔‘
دھن راج سہگل کے ساتھ کیا ہوا؟
رویندر این سہگل بتاتے ہیں کہ ’دھن راج راولپنڈی سے واپس آ کر کافی پریشان رہا لیکن پھر ایک دن پتہ چلا کہ اس نے رائے بہادر نتھو رام آف اٹک کی بیٹی سے شادی کر لی ہے۔ بس اس کے بعد دھن راج سہگل سے اس کے خاندان نے مکمل بائیکاٹ کر لیا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نے رویندر سے پوچھا کہ ایک مسلمان رقاصہ کو بغیر شادی کے ساتھ رکھنے پر تو بائیکاٹ نہیں کیا، پھر ایک ہندو لڑکی سے شادی کرنے پر کیوں بائیکاٹ کر دیا؟
تو راویندر سہگل نے بتایا کہ ’لڑکی کا باپ کوئی عام ہندو یا رائے بہادر نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ہندوستان سے غداری کی ایک تاریخ جڑی ہوئی تھی۔ جب آزادی کے نامور ہیرو بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تو اس وقت ان احکامات پر عمل درآمد کے لیے نتھو رام سٹی مجسٹریٹ لاہور کے عہدے پر تعینات تھا۔
’انگریز نے اس غداری کے عوض اسے رائے بہادر کا خطاب دیا اور ساتھ بہت جائیداد اور پیسہ دیا، جس سے نتھو رام نے دہلی آ کر ایلیٹ کلاس کے لیے ایک فرینڈز کالونی بنائی۔ اس کالونی میں ہر گھر ایک ایکڑ پر مشتمل تھا۔ یہ وہی کالونی تھی جہاں آج پریانکا گاندھی اور ہندوستان کی دوسری امیر ترین شخصیات رہتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’ہمارا خاندان دھن راج کی ایک رقاصہ سے شادی کو تو قبول کر سکتا تھا لیکن ایک غدار وطن کی بیٹی سے شادی کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔‘