برطانوی وزیراعظم رشی سونک کو سکیورٹی کی خلاف ورزی پر مستعفی ہونے کے باوجود سویلا بریورمین کو دوبارہ وزیر داخلہ تعینات کرنے پر اس وقت دباؤ کا سامنا ہے۔
رشی سونک نے وزیر اعظم بننے کے بعد سویلا بریورمین کو وزیر داخلہ کے طور پر بحال کیا تھا جب کہ سویلا نے کچھ دن قبل ہی لز ٹرس کی قلیل مدتی حکومت کو چھوڑا تھا۔
حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ یویٹ کوپر نے رشی سونک کی جانب سے بریورمین کی دوبارہ تعیناتی کے ’غیر ذمہ دارانہ‘ اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بریورمین کی طرف سے ’ممکنہ دیگر سکیورٹی خلاف ورزیوں‘ پر بھی سوالات موجود ہیں۔
جب کہ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کا اصرار ہے کہ بریورمین نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور ذمہ داری قبول کی۔
یویٹ کوپر نے مزید کہا کہ ’سکیورٹی کی کوتاہیوں پر وزارتی کوڈ توڑنے والی کی صرف چھ دن بعد دوبارہ تعیناتی اس فیصلے کی بہت بڑی غلطی کو ظاہر کرتی ہے جو رشی سونک نے کیا۔‘
’اس قسم کی افراتفری، الجھن اورغیر ذمہ دارانہ فیصلہ سازی کی نسبت قومی سلامتی زیادہ اہم ہے۔‘
یویٹ کوپر نے یہ بات اس وقت کہی جب لیبر پارٹی کے رہنما کیئرسٹارمر نے جمعے کو کہا تھا کہ رشی سونک کو چاہیے کہ بریورمین کو برطرف کر دیں۔
سویلا بریورمین کو سب سے زیادہ دائیں بازو کے ٹوری ارکان پارلیمنٹ کی نمائندگی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ برطانیہ میں غیر قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کو روانڈا بھیجنے کے منصوبے کی پرجوش حمایتی ہیں۔
مبینہ طور پر امیگریشن پالیسی پر ان کی لزٹرس کے ساتھ بحث ہوئی تھی لیکن انہوں نے سکیورٹی کی خلاف ورزی پر ملازمت چھوڑی (اپنے نجی ای میل اکاؤنٹ پر ایک حساس دستاویز بھیجنا اور پھر اسے آگے فارورڈ کرنا۔)
برطانوی وزیراعظم کے اتحادی مائیکل گوو، جو بورس جانسن کے دور وزارت میں بھی تھے، نے اتوار کو بریورمین کا دفاع ’پہلے درجے کے فرنٹ رینک سیاستدان‘ کے طور پر کیا۔
انہوں نے سکائی نیوز کو بتایا کہ بریورمین ’اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کر رہی ہیں کہ ہماری سرحدوں کو زیادہ محفوظ بنایا جا سکے اور نگرانی زیادہ موثر ہو۔‘
مائیکل گوو نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ان کی ’سمجھ داری‘ تھی کہ بریورمین نے فوری طور پر مناسب طریقے سے اس واقعے کی اطلاع دی، جبکہ اس براڈکاسٹر نے اطلاع دی کہ اس نے بریورمین کی طرف سے ایک ای میل دیکھی جس میں وصول کنندہ سے کہا گیا گیا تھا، ’کیا آپ اس پیغام کو حذف اور نظر انداز کرسکتے ہیں؟‘
مائیل گوو نے زور دے کر کہا کہ اس طرح کا پیغام ’معمول کا عمل‘ ہوگا۔
یہ سکینڈل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب میل آن سنڈے نے ایک غیر مصدقہ رپورٹ شائع کی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ لز ٹرس کا ذاتی فون ماسکو کے مشتبہ ایجنٹوں نے اس وقت ہیک کیا تھا جب وہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی تھیں۔
مائیکل گوو نے سکائی نیوز کو بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ یہ کہانی سچ ہے یا نہیں، لیکن اس بات پر زور دیا، ’ ہم سکیورٹی کے معاملات کو ناقابل یقین حد تک سنجیدگی سے لیتے ہیں۔‘
برطانوی حکومت نے اتوار کو اصرار کیا ہے کہ ان کے پاس سرکاری عہدیداروں کے لیے مضبوط سائبر سکیورٹی ہے۔
خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے میل آن سنڈے کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ اس ہیک کا انکشاف اس وقت ہوا جب لزٹرس کنزرویٹو پارٹی کی رہنما اور وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں شامل تھیں۔ اس وقت کے وزیر اعظم بورس جانسن اور سول سروس کے سربراہ نے سکیورٹی کی اس خلاف ورزی کو خفیہ رکھا۔
اخبار نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہیکنگ کا شک روسی جاسوسوں پر کیا گیا تھا۔
میل آن سنڈے کے مطابق ہیکرز نے حساس معلومات تک رسائی حاصل کی، جس میں غیر ملکی عہدیداروں کے ساتھ یوکرین کی جنگ کے بارے میں تبادلہ خیال اور لزٹرس اور ایک سیاسی حلیف، سابق ٹریژری چیف کواسی کوارٹینگ کے مابین نجی گفتگو بھی شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی حکومت کے ترجمان نے سکیورٹی کے انتظامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا، لیکن کہا کہ ان کے پاس’سائبر خطرات سے بچنے کے لیے مضبوط نظام موجود ہیں، ان میں وزرا کے لیے باقاعدگی سے سکیورٹی بریفنگ بھی شامل ہے۔‘
حزب اختلاف کی جماعتوں نے ہیکنگ اور ایک اخبار کو معلومات ملنے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
لبرل ڈیموکریٹ کی خارجہ امور کی ترجمان لیلا موران کا کہنا تھا کہ ’کیا لز ٹرس کا فون روس نے ہیک کیا تھا، کیا کوئی نیوز بلیک آؤٹ تھا اور اگر ایسا ہے تو کیوں؟
’اگر یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ معلومات اس لیے روکی گئیں کہ لز ٹرس قیادت کی دوڑ میں شامل رہیں، تو یہ ناقابل معافی ہو گا۔‘
لیبر پارٹی کے امن و امان کے ترجمان یویٹ کوپر نے کہا کہ ’یہ خبر سائبر سکیورٹی کے متعلق مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔‘