طالبان قید میں برطانوی جوڑے کے بیٹے کی امریکہ سے والدین کی رہائی میں مدد کی اپیل

79 سالہ پیٹر رینالڈز اور ان کی اہلیہ 75 سالہ باربی رینالڈز کو طالبان اہلکاروں نے فروری میں اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ بامیان میں اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔

برطانوی جوڑا پیٹر رینالڈز اور باربی رینالڈز جو طالبان کی قید میں ہیں اور ان کے صاحبزادے نے امریکی حکام سے ان کی رہائی میں مدد کی اپیل کی ہے (سپلائڈ)

طالبان کی قید میں موجود برطانوی جوڑے کے بیٹے نے امریکی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان کی جیل میں قید ان والدین کی رہائی میں مدد کریں۔

79 سالہ پیٹر رینالڈز اور ان کی 75 سالہ اہلیہ باربی رینالڈز کو یکم فروری کو طالبان حکام نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ افغانستان کے صوبہ بامیان میں واقع اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔

ان کے ساتھ ان کی دوست اور امریکی شہری فے ہال اور ایک افغان مترجم کو بھی گرفتار کیا گیا تاہم فے ہال کو 29 مارچ کو رہا کر دیا گیا۔

برطانوی جوڑے کے صاحبزادے جوناتھن رینالڈز نے کہا کہ جو بھی میرے والدین کو رہا کرا سکتا ہے، اسے ’یہ کام ابھی کرنا چاہیے۔‘

رینالڈز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس کے پاس بھی وہ چابی ہے جس سے انہیں رہا کرایا جا سکتا ہے، چاہے وہ طالبان ہوں، برطانوی حکومت ہو یا امریکی حکومت، میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ براہ مہربانی یہ کام ابھی کریں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اور اگر آپ کے پاس ان لوگوں پر دباؤ ڈالنے کی طاقت ہے جن کے پاس وہ چابی ہے تو براہ کرم ابھی دباؤ ڈالیں۔‘

یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب امریکہ نے فے ہال کی رہائی میں سہولت فراہم کی، جنہیں گذشتہ ماہ عدالتی حکم اور قطر کی معاونت کے بعد رہا کیا گیا۔

قطر، طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد  ’تحفظ فراہم کرنے والی‘ امریکی طاقت اور افغانستان میں سفارتی نمائندہ ہے۔

طالبان نے فے ہال کی رہائی کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے لیے’خیر سگالی کا اشارہ‘ قرار دیا ہے۔

برطانوی جوڑا اب بھی طالبان کی تحویل میں ہے اور اس کے خلاف تاحال کوئی باقاعدہ الزام عائد نہیں کیا گیا۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ان کی ابتدائی گرفتاری ایک’غلط فہمی‘ کی بنیاد پر ہوئی، کیوں کہ شبہ تھا کہ اس کے پاس جعلی افغان پاسپورٹ ہیں۔

یہ جوڑا، جس نے 1970 میں کابل میں شادی کی، افغانستان میں ری بلڈ چلا رہا تھا، ایک تنظیم جو گذشتہ 18 سال سے کاروباروں، سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے لیے تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی ہے۔

ان کے بیٹے نے کہا: ’وہ کئی بار عدالت جا چکے ہیں، جو ان کے لیے نہایت پریشان کن ہے، کیوں کہ ان پر کوئی الزام نہیں، اور ہر بار انہیں یہی کہا جاتا ہے کہ ہاں، آپ بے قصور ہیں، یہ تو صرف ایک رسمی کارروائی ہے، ہم سے غلطی ہو گئی۔‘

جوناتھن رینالڈز کا کہنا تھا کہ وہ جیل کے پے فون کے ذریعے اپنے والدین سے بات کرتے ہیں اور یہ بات چیت ’انتہائی تکلیف دہ‘ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے والدین نے افغانستان میں اپنے کام کے حوالے سے ہمیشہ کھل کر بات کی اور وہ طالبان کے ساتھ کام کرنے کی کوشش بھی کرتے رہے ہیں۔

فروری میں طالبان عہدےدار عبدالمتین قانی نے اس جوڑے کی حراست کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: ’کئی پہلوؤں کو مدنظر رکھا جا رہا ہے اور جانچ پڑتال کے بعد ہم انہیں جلد از جلد رہا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘

طالبان سے کی گئی ایک سابقہ اپیل میں جوڑے کے بچوں نے کہا کہ’ ہم خلوص دل سے امید کرتے ہیں کہ اس درخواست کو رمضان کے مقدس مہینے میں ہمدردانہ اقدام کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ رمضان ایسا موقع ہے جب اسلام میں رحم اور شفقت کے اصولوں کو خاص طور پر اہمیت دی جاتی ہے۔‘

قبل ازیں برطانوی جوڑے کے بچوں نے اپنے والدین کی حراست کو’ناانصافی اور ظلم‘ قرار دیا۔

ان کی بیٹی سارہ انٹ وسلز نے دی انڈپنڈنٹ کو بتایا کہ والدین کو الگ کرنے کے بعد انہیں سخت سکیورٹی والی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔

جوڑے کے خاندان کے لوگوں کے مطابق پیٹر رینلڈز شدید تکلیف میں ہیں، کیوں کہ طالبان نے انہیں مارا پیٹا اور زنجیروں میں جکڑ دیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ