سات ماہ قبل خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کے بعد ’اپر‘ جنوبی وزیرستان کا نام تبدیل کرنے کا معاملہ زیر غور ہے۔
اس سلسلے میں سینیٹر دوست محمد محسود نے میڈیا کو بتایا ہے کہ بیوروکریسی، حکومتی اور عسکری سطح پر ’محسود‘ نام رکھنے پر اصولی اتفاق کیا گیا ہے، یہ اعلامیہ علاقوں کی تقسیم کے فوراً بعد جاری کیا جائے گا۔
تاہم اس حوالے سے معلومات رکھنے والے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس معاملے پر ابھی رائے عامہ قائم نہیں کی گئی ہے، لہذا آنے والے دنوں میں اس پر ایک گرینڈ جرگہ بلائے جانے کا امکان ہے۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے موجودہ سینیٹر دوست محمد محسود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’محسود قبیلے کے حامی افراد صرف ’محسود‘ یا ’محسودستان‘ نام رکھنا چاہتے ہیں، جو کہ تاریخی وجوہات کی بنا پر مدنظر رکھا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’وزیرستان کی تاریخ میں محسود ایک جنگجو اور نڈر قوم رہی ہے اور اسی سبب ان کا ذکر اولف کیرو سے لے کر عمران خان اور دیگر ملکی وغیرملکی مصنفین کی کتابوں میں ملتا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’محسود قبیلے کی دوسرے قبیلوں پر فوقیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انگریز دور حکومت میں اہمیت محسود قبیلے کو حاصل تھی اور اسی وجہ سے ملازمت، بجٹ اور دیگر مراعات میں انہیں تین حصے اور سلیمان خیل، دوتانی اور وزیر سب کو ملا کر ایک حصہ دیا جاتا تھا۔‘
بقول دوست محمد: ’محسود قبیلے کے پاس زرعی زمین، جنگلات، باغات کچھ بھی نہیں ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ دہشت گردی کے خلاف ایک دہائی سے زائد جنگ میں تمام محسود علاقے ہی زیادہ تر متاثر ہوئے ہیں۔ دوسری جانب وزیر قبائل زرعی لحاظ سے مالامال ہیں۔ ان کے پاس چلغوزے کے جنگلات سمیت پھلوں کے باغات سب کچھ وافر مقدار میں ہے۔ ‘
سینیٹر محسود نے کہا کہ تاریخی، جغرافیائی، معاشی ومعاشرتی مسائل کے لحاظ سے ان کے قبیلے کی ایک بڑی اکثریت اپنا الگ نام اور تقسیم چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ انگریزوں نے وزیرستان کو جنوبی اور شمالی جبکہ خیبر پختونخوا کو ’این ڈبلیو ایف پی‘ کا نام دیا تھا۔
’اب موجودہ دور میں جنوبی وزیرستان کو اپر اور لوئر کا نام دینا نہایت غیر مناسب ہوگا۔ جس طرح اورکزئی، مہمند، خیبر نام ہیں، اسی طرح ہم اپنا نام رکھیں گے کیونکہ اپر لفظ نہایت غیرموزوں اور مضحکہ خیز ہوگا۔‘
وزیرستان رقبے کے لحاظ سے تمام قبائلی اضلاع میں سب سے بڑا ہے، یہی وجہ ہے کہ انگریز دور حکومت میں انتظامی امور بہترین طریقے سے سنبھالنے کے لیے اس وقت یہ ضروری سمجھا گیا کہ وزیرستان کو شمالی اور جنوبی وزیرستان میں تقسیم کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تقسیم کے بعد شمالی وزیرستان میں وزیر اور داوڑ قومیں آباد ہوئیں، جبکہ جنوبی وزیرستان میں احمدزئی اور اتمانزئی آباد ہوئے۔ احمد زئی اور اتمانزئی قبیلوں میں بھی وزیر، محسود، برکی، گربز شامل ہیں، جو آگے مزید شاخوں اور ذیلی قبیلوں میں تقسیم ہوئے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل وزیر عمائدین نے قبیلے کے ساتھ متفقہ مشورے کے بعد محسود سے جدا ہونے کا فیصلہ کیا، اگرچہ اس وقت بھی وزیرستان کے کچھ لوگوں نے دو حصوں میں تقسیم نہ ہونے کا کہہ کر اس فیصلے کو مسترد کیا تھا، لیکن بعدازاں اکثریتی فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپریل 2022 میں حکومت کی جانب سے ایک باقاعدہ اعلان کے ذریعےجنوبی وزیرستان کو دو اضلاع کا درجہ دیا گیا۔
اور یوں پہلی دفعہ احمدزئی اور اتمانزئی قبیلے ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔
تاہم وزیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے اس وقت اپنے پیغام میں یہ بھی کہا تھا کہ یہ فیصلہ انتظامی امور کو احسن طریقے سے نبھانے کے لیے لیا گیا ہے اور اس کا حتمی اعلامیہ نئی مردم شماری کے بعد جاری کیا جائے گا جو کہ 2023 میں متوقع ہے۔
نئی اطلاعات کے مطابق جہاں محسود قبائل نے وسائل کی کمی، دہشت گردی سے متاثر ہونے کو وجہ قرار دیتے ہوئے الگ ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے، وہیں وزیر قبائل کے مطابق انہوں نے خود کو جنگ، ہتھیار اور دیگر تنازعوں سے دور رکھنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے۔
جنوبی وزیرستان کی ایک متحرک سیاسی شخصیت اور قبائلی عوامی پارٹی کے بانی اعظم خان محسود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دراصل الگ ہونے کا مطالبہ وزیروں کا تھا جو محسود کو جنگ وجدل اور تنازعات کا حصہ سمجھتے ہوئے انہیں اپنے لیے باعث نقصان سمجھتے ہیں۔‘
انہوں نے اپرجنوبی وزیرستان کا نام ’محسود‘ یا ’محسودستان‘ رکھنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف انہیں بلکہ ویزرستان کا ہر وہ باشندہ جو اپنی تاریخ سے واقف ہے اس فیصلے کی نہ صرف مخالفت کرے گا۔
’اگر ایسا کوئی سرکاری اعلامیہ جاری ہوا، تو بھرپور احتجاج کے ذریعے اس کو روکا جائے گا۔ محسود، وزیر، داوڑ، سلیمان خیل، گربز، برکی، دوتانی اور وزیرستان کے دیگر تمام قبیلوں کا جدامجد ایک ہے، جن کا نام ’وزیر‘ تھا۔‘
انہوں نے کہا: ’وزیرستان کی پوری تاریخ اسی نام سے لکھی گئی ہے جو کہ برطانیہ کی لائبریریوں میں موجود ہے۔ ہم ہمیشہ اور ہر جگہ وزیرستان کے نام سے پہچانے گئے، کوئی اور نام کنفیوژن پیدا کرنے کے ساتھ یہ تمام وزیرستان کے قبائل کے ساتھ زیادتی تصور ہوگی۔‘
اعظم خان محسود نے سینیٹر دوست محمد پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: ’وہ خود ہمیشہ وزیرستان سے باہر زندگی گزارتے آئے ہیں، اسی لیے انہیں اس معاملے کی نزاکت کا احساس نہیں ہے۔ یقیناً حکومتی اور عسکری سطح پر ایسا یک طرفہ فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر بہت ہی ناانصافی کی گئی تو نیا نام پھر بھی شاید محسود وزیرستان رکھا جائے گا۔ وزیرستان کا لفظ نہیں ہٹایا جاسکتا، یہ لازماً شامل ہوگا۔‘
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی وزیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف سے متعدد بار رابطہ کرکے حکومتی موقف جاننےکی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہوسکا۔